بارش، سیلابی ریلے اور بے بس چیخیں
بارش، سیلابی ریلے اور بے بس چیخیں

بارش، سیلابی ریلے اور بے بس چیخیں
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار کراچی میں بارشوں سے متعلق ایک صحافی کے سوال پر سادہ مگر حقیقت پسندانہ جواب دیا “جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے”۔ اس سچ کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا، سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑایا گیا، اور ایک قدرتی آفت کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا کر پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کو مطعون کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہی تماشہ ہر سال کراچی میں بارش کے آغاز پر دہرایا جاتا ہے۔ میڈیا کا ایک مخصوص دھڑا چند انچ بارش پر شور مچاتا ہے، لیکن جب ملک کے دوسرے حصوں میں سیلابی ریلے انسانی بستیاں بہا لے جاتے ہیں، جانیں ضائع ہوتی ہیں، اور پورے علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں، تو وہ خبریں ایک کونے میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ کراچی میں پانی جمع ہو جائے تو وہ “قومی بحران” بن جاتا ہے، لیکن خیبرپختواہ یا پنجاب میں سینکڑوں انسانی جانوں کا ضیاع محض “علاقائی واقعہ” تصور کیا جاتا ہے۔ یہ میڈیا کی ترجیحات کا وہ تعصب ہے جس پر سنجیدگی سے سوال اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آج کل پاکستان ایک بار پھر مون سون کی موسلا دھار بارشوں سے آنے والی قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی شدید بارشوں نے کئی انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ سوات، اسلام آباد، راولپنڈی، چکوال اور لاہور میں موسلا دھار بارشوں، برساتی ریلوں اور نالوں کی طغیانی نے سینکڑوں قیمتی جانیں نگل لیں۔ درجنوں خاندان بےگھر ہوئے، اور بہت سوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں پانی سے نکالنی پڑیں۔ سب سے دل دہلا دینے والا واقعہ سوات میں پیش آیا، جہاں ڈسکہ سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی سیر و تفریح کے لیے گئی تھی۔ اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں پھنس جانے والے بچے اور خواتین دو گھنٹے تک مدد کے لئے چلاتے رہے، لیکن نہ کوئی ریسکیو ٹیم پہنچی، نہ کوئی ہیلی کاپٹر، نہ کوئی ریاستی ہنگامی ردعمل۔ وہ سب لوگ ایک ایک کر کے دریائے سوات کی بے رحم لہروں کی نذر ہو گئے۔ ان کی آخری فریادیں آج بھی سوشل میڈیا پر گونج رہی ہیں، اور ریاست کی مجرمانہ غفلت پر نوحہ کناں ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک اور کربناک سانحہ پیش آیا، جہاں ایک باپ بیٹی اپنی گاڑی سمیت سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور ریاست، ایک بار پھر صرف تماشائی بنی رہی۔
ان تمام سیلابی ریلوں کا مشترکہ پہلو یہ ہے کہ پانی اپنی پرانی اور فطری گزرگاہوں سے گزرا جہاں اب انسانوں نے بستیاں بسا لی ہیں۔ ان بستیوں کو “تجاوزات” کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عام لوگوں کی جھگیاں نہیں، بلکہ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور دیگر نجی سوسائٹیاں ہیں جنہیں پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو نظرانداز کر کے وہاں رہائشی و کمرشل منصوبے کھڑے کر دئیے گئے۔ یہ وہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں جنہیں باقاعدہ اجازت دی گئی، این او سی جاری کیے گئے، زمینوں کو ریگولرائز کیا گیا، اور حکومت، افسر شاہی اور اداروں نے مل کر ان غیر قانونی تعمیرات کو قانونی تحفظ دیا۔ سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے، بلدیاتی حکام اور ماحولیاتی ایجنسیاں کیوں خاموش رہیں؟ جواب واضح ہے کیونکہ یہ صرف بلڈرز کے منصوبے نہیں تھے بلکہ ریاستی طاقت، عدالتی چشم پوشی، بیوروکریسی اور اشرافیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔ جب پانی کی گزرگاہوں پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے بسایا جاتا ہے تو وہ “شاندار ترقی” کہلاتی ہے، لیکن اگر کسی غریب کی جھگی پانی کے کنارے ہو تو وہ “تجاوزات” قرار دی جاتی ہے۔ یہی ہے وہ ظالمانہ دوہرا معیار، جو انسانی جانوں کے ضیاع کا اصل مجرم ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قدرتی حسن اور سیاحتی کشش سے فائدہ اٹھانے کے نام پر دریاؤں کے کناروں اور عین گزرگاہوں میں ہوٹل، ریسٹ ہاؤسز اور دیگر کمرشل تعمیرات کھڑی کر دی گئی ہیں۔ یہ تعمیرات نہ صرف ماحولیاتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ انسانی جانوں کو بھی مسلسل خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ ہر سال مون سون کے دوران جب تیز بارشوں سے سیلابی ریلے آتے ہیں، تو یہی عمارتیں پانی کی زد میں آ کر تباہ ہو جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود نہ حکومت ہوش میں آتی ہے، نہ ہی متعلقہ ادارے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، صوبائی حکومتیں، اور ضلعی انتظامیہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ ان غیرقانونی اور خطرناک تعمیرات کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی جاتی، نہ ہی طویل المدتی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ ایسی آفات سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ ریاستی ادارے صرف وقتی ریلیف، فوٹو سیشنز اور میڈیا پر نمائشی بیانات کو ہی اپنی کارکردگی سمجھتے ہیں۔ اگر فوری طور پر دریاؤں کی حدود کے اندر کی گئی تعمیرات کو ہٹانے اور مستقبل میں ان پر مکمل پابندی کے عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو شمالی پاکستان کی قدرتی خوبصورتی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی، اور انسانی جانوں کا ضیاع محض “قدرتی آفت” کہہ کر نظر انداز کیا جاتا رہے گا۔
پے درپے سیلابوں اور تیز رفتار سیلابی ریلوں کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے، جس کا ادراک بدقسمتی سے اب تک ریاستی پالیسی سازی میں سنجیدگی سے نہیں کیا گیا۔ موسمیاتی تغیرات کے باعث بارشوں کے پیٹرن میں غیر معمولی تبدیلی، برفباری کے شیڈول میں بگاڑ، اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ نہ صرف طوفانی بارشوں کا سبب بن رہا ہے بلکہ دریاؤں اور ندی نالوں میں شدید طغیانی کا موجب بھی بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کا تیزی سے کٹاؤ، خصوصاً پہاڑی اور بالائی علاقوں میں درختوں کی غیرقانونی کٹائی زمین کے قدرتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ درختوں کی جڑیں بارش کے پانی کو جذب کرنے اور زمین کو کھسکنے سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن جب یہ درخت ختم ہو جاتے ہیں تو بارش کا پانی رکاوٹ کے بغیر نیچے کی طرف بہتا ہے اور شدید تباہی پھیلاتا ہے۔
ہر سال سیلاب کا سامنا کرنے کے باوجود ریاست کی جانب سے نہ تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع پالیسی سامنے آئی ہے اور نہ ہی ماحولیاتی تحفظ کو قومی سلامتی کے بیانیے میں شامل کیا گیا ہے۔ جب تک حکومت اس مسئلے کو سنجیدہ قومی چیلنج کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اور جنگلات کے تحفظ، بارش کے پانی کی مینجمنٹ، اور ماحول دوست ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح نہیں دیتی، تباہ کن سیلاب معمول بنتے جائیں گے۔
قدرتی آفات خود ظالم نہیں ہوتیں، بلکہ ہماری غفلت، خودغرضی اور خاموشی انہیں قاتل بنا دیتی ہے۔ جب ریاستی نااہلی، بیوروکریسی کی چشم پوشی، طاقتور طبقات کی خودغرضی، اور ماحولیاتی نظام کی مسلسل پامالی اس تباہی کو مزید بڑھا دے، تو یہ صرف آفاتِ قدرت نہیں رہتیں، بلکہ انسان کی بنائی ہوئی اجتماعی بربادی بن جاتی ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر بارش کے ساتھ لاشیں بہتی ہیں، اور ہر بار سیلاب کے ساتھ ہماری اجتماعی نالائقی اور بےحسی کا گند بھی سطح پر آ جاتا ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ بارش کب ہو گی، یا پانی کہاں جائے گا اصل سوال یہ ہے کہ ریاست کب جاگے گی؟ کیا ہر بار بچوں کی لاشیں اٹھانے، ماؤں کی چیخیں سننے، اور لاچار باپوں کی سہمی اداس نظریں دیکھنے کے بعد ہی ہوش آئے گا؟ یا ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہر قدرتی آفت کو اپنی مجرمانہ غفلت سے قتلِ عام میں تبدیل کرتے رہیں گے؟ خاموشی اب جرم بن چکی ہے اور سوال گونج رہا ہے کیا ریاست اب بھی بے حس رہے گی، یا کسی نئے طوفان سے پہلے ہوش آ جائے گا؟
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

ہم خیال چاہئے کالم

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.