ہفتہ ،13 ستمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

ہم خیال چاہئے کالم

ہم خیال چاہئے کالم

Editor

4 گھنٹے قبل

Voting Line
ہم خیال چاہئے
کالم
 
 
محترمہ علیمہ خان8ستمبر بروز پیر میڈیاسے بات کر رہی تھیں کہ ایک صحافی طیب بلوچ نے مزاج کے خلاف ایک سوال کر دیا تو اس کی وہ درگت بنی کہ پوری محفل ہی اجڑ کر رہ گئی ۔ ہر صورت ہم خیال چاہئے ۔ اگر ہم خیال نہیں تو کسی صورت قابل قبول بھی نہیں ۔ اگر آرمی چیف ہم خیال ہے تو وہ قوم کا باپ ہے لیکن اگر وہ ہم خیال نہیں تو پھر وہ میر جعفر اور میر صادق بن جاتا ہے ۔ جب تک ہم خیال ججز تھے تو عدلیہ آزاد بھی تھی اور غیر جانب دار بھی تھی لیکن جیسے ہی ہم خیالوں کی جگہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے غیر جانب دار ججز آئے تو پھر اسی عدلیہ پر تبرے بھیجے جانے لگے ۔ اگر جج ہم خیال ہو تو ٹھیک ورنہ اگر وہ ہم خیال نہ ہو اور غلطی سے بھی ان کے خلاف فیصلہ آ جائے تو بھرے مجمع میں سر عام اس جج کو چاہے وہ خاتون جج ہی کیوں نہ ہو ان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ سول بیورو کریسی اگر ہم خیال ہے تو ٹھیک ورنہ انھیں بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’’ ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں ‘‘ ۔ وزیر اعظم ہائوس میں اگر صحافیوں یا اینکرز کو دعوت دینی ہے تو اس میں اس بات پر خاص توجہ دینی پڑتی تھی کہ کوئی ایسا صحافی اینکر نہ آ جائے کہ جو ہم خیال نہ ہو ۔ پشاور میں بانی پی ٹی آئی پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ وہاں غلطی سے ایک صحافی نے مزاج کے خلاف سوال کر دیا تو جواب دینے کی بجائے پریس کانفرنس ہی چھوڑ کر چلے گئے ۔ 2018میں الیکشن کے بعد درجن کے قریب سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے تحریک انصاف نے حکومت بنائی تو جب تک اتحادی جماعتیں ہم خیال رہیں تو وہ سب محب وطن بھی تھیں اور راوی ان کے متعلق ہر طرح سے خیر ہی خیر لکھ رہا تھا لیکن عدم اعتماد کی تحریک کے وقت وہی سیاسی جماعتیں جب حکومت سے علیحدہ ہو کر حزب اختلاف کے ساتھ ملتی ہیں اور ہم خیال نہیں رہتیں تو پھر وہ سب ملک دشمن اور غیر ملکی قوتوں سے مل کر ملک کے خلاف سازش کرنے والی غدار بن جاتی ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ہی خان صاحب محمود خان اچکزئی کی نقلیں اتارا کرتے تھے اور مولانا فضل الرحمن کو جن القابات سے پکارا کرتے تھے وہ بھی سب کو یاد ہے لیکن پھر جب مطلب پڑا اور انھیں ہم خیال بنانے کی ضرورت پڑی تو محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن گئے اور مولانا فضل الرحمن کے در دولت پر نہ صرف یہ کہ حاضریاں دی جاتی ہیں بلکہ ان کی اقتدا میں نماز بھی جائز ہو جاتی ہے۔ دوسری جماعتوں کے ارکان کو اپنا ہم خیال بنائیں تو وہ لوٹا کریسی نہیں بلکہ وہ عین ضمیر کے مطابق ہے اور اسے مخالفین کی وکٹ گرانے کا نام دیا جاتا ہے لیکن اگر ان کی پارٹی کا کوئی بندہ دوسری پارٹی میں چلا جائے تو انتہائی احمقانہ بونگیاں ماری جاتی ہیں کہ ’’ تمہیں تو کوئی غمی خوشی میں نہیں بلائے گا حتیٰ کہ یہاں تک کم ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا کہ تمہارے بچوں کے تو کہیں رشتے نہیں ہوں گے ۔
ہم خیال جنرلز، ہم خیال ججز، ہم خیال صحافی۔ یہ عادت اس حد تک پختہ ہو چکی تھی کہ اگر غلطی سے کسی نے کوئی سخت سوال کر دیا تو مزاج بگڑ جاتے ہیں اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ طیب بلوچ جو کہ ایک ذمہ دار صحافی اور وی لاگر ہے اس کے ایک سوال پر مزاج اس حد تک برہم ہو گئے کہ درجنوں افراد جو ساتھ تھے ان سے اس بیچارے کی پٹائی کرا دی۔ یہ اس جماعت کا طرز عمل ہے کہ جو آزادی صحافت کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی لیکن خود اپنے مزاج اس حد تک آمرانہ ہیں کہ کسی صحافی کا ایک سوال بھی برداشت نہیں ہوتا ۔ طیب بلوچ عام طور پر عدالتی امور کے حوالے سے وی لاگ کرتے ہیں اور اپنی ضمیر کی آواز پر بڑی بے باکی کے ساتھ اونچی مسندوں پر بیٹھے ہم خیالوں کے چہروں سے نقاب اتارتے ہیں ۔ ان کی جو بھی رائے ہوتی ہے اس سے یقینا اختلاف ممکن ہے لیکن کیسا کمال ہے کہ ان کے فقط ایک سوال نے جمہوریت کے دعوے داروں کے چہروں سے نقاب نوچ کر پھینک دی ۔ جنھوں نے ان پر حملہ کیا انھوں نے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ پوری صحافی برادری موجود ہے کیمرے ریکارڈنگ کر رہے ہیں تو یہ سب عوام تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن کمال مہارت نہیں بلکہ کمال حماقت کے ساتھ فاش ازم کا مظاہرہ کیا گیا ۔ 
اس قسم کی رعونت کا مظاہرہ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اس طرح کے غیر مناسب رویے صرف غیروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اگر خود تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈلالیں تو جس طرح آپس کی لڑائیوں میں ایک دوسرے پر انتہائی رقیق حملے کئے جا رہے ہیں تو اس سے بھی اس جماعت کے مزاج کا پتا لگتا ہے۔ اکثر قارئین سوچتے ہوں گے کہ جس قدر مقبولیت کے دعوے کئے جاتے ہیں اور جس زور شور سے اس مقبولیت کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں تو پھر احتجاج کی ہر کال ناکام کیوں ہوتی ہے تو اس پر ہم بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی رائے دے چکے ہیں لیکن حالات و واقعات کی رائے اور وقت کی گواہی کو کوئی جھٹلانا چاہے بھی تو جھٹلا نہیں سکتا ۔ جب اس طرح کے رویے ہوں اور پورے ملک میں بارشوں اور اس کے بعد جس طرح سیلاب نے تباہی مچائی ہے تو اس پر اگر عوام کے لئے بانی کی جانب سے ایک حرف ہمدردی کا نہیں کہا جاتاتو عوام بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’ پائین آپ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش ‘‘ ۔ 
 
Comments

No comments yet.

Effy Jewelry