سیاست - ممکنات کا کھیل
سیاست - ممکنات کا کھیل

سیاست - ممکنات کا کھیل
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
سیاست کو ممکنات کا کھیل سمجھا جاتا ہے، جہاں نہ دوستیاں مستقل ہوتی ہیں نہ دشمنیاں دائمی۔ آج کا حریف کل کا حلیف بن سکتا ہے، اور آج کا اتحادی کل کے میدان میں مخالف سمت میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہی سیاست کی فطرت ہے، مسلسل تغیر، مسلسل حرکت۔ سیاست میں دروازے ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں کیونکہ حالات، مفادات اور ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں لچک، برداشت اور مکالمے کی گنجائش کو بڑی حکمت سمجھا جاتا ہے۔ مستقل مزاجی ضرور ہو، مگر ضد نہیں، اصول ہوں، مگر ضدی انا نہ ہو۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اختلاف کو دشمنی میں اور اتفاق کو غلامی میں نہ بدلا جائے، بلکہ قومی مفاد کے تحت ہر ممکن راستہ کھلا رکھا جائے تاکہ جب وقت اور حالات بدلیں تو ایک نیا باب تحریر کیا جا سکے بغیر کسی ذاتی کدورت یا تلخی کے بوجھ کے۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بھی ایک ایسا اہم موڑ آ چکا ہے جہاں سے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے راستے جُدا ہو سکتے ہیں۔ فوری طور پر ایسا ہونا بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا لیکن آئندہ چند ماہ میں ایسا ہو جانا عین ممکن ہے۔ مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلے کے بعد جہاں پاکستان تحریک انصاف کو ایوان میں ایک دھچکا لگا، وہیں پیپلزپارٹی کے لیے بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا موقعہ پیدا ہوا ہے اور برسوں سے حکومتی اتحاد کا حصہ بنی پیپلزپارٹی مفاہمت سے نکل کر اپوزیشن کی سیاست کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ نہ صرف پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں پارٹی کے سیاسی احیاء کی راہ ہموار کر سکتا ہے، اسے آئندہ انتخابات کے لیے نہ صرف مؤثر تیاری کا موقعہ فراہم ہو گا بلکہ اپوزیشن کا کردار پیپلزپارٹی کے بیانیے کو مضبوط کرنے اور متبادل قیادت کے طور پر خود کو منوانے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔
پیپلزپارٹی کی اپوزیشن میں واپسی کا ایک اہم سیاسی فائدہ پنجاب میں سامنے آ سکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پیپلزپارٹی کی مفاہمتی سیاست نے اسے نون لیگ کا اتحادی بنا کر پیش کیا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ نون لیگ کے مخالف ووٹرز، جو ماضی میں پیپلزپارٹی کے حامی تھے، وہ پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے۔ اب اگر پیپلزپارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے اور نون لیگ کے ساتھ ایک واضح سیاسی فاصلہ اختیار کرتی ہے تو وہ ووٹ بینک جو پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے لاتعلق ہو چکا ہے یا پی ٹی آئی کی طرف جا چکا ہے پیپلزپارٹی کی طرف واپس آ سکتا ہے کیونکہ عمران خان کی لمبی قید اور پی ٹی آئی کی غیر موثر سیاست کی وجہ سے سیاسی خلا بہرحال موجود ہے جسے پیپلزپارٹی ایک متبادل قوت کے طور پر سامنے آ کر پُر کر سکتی ہے۔ خاص طور پر پنجاب جیسے صوبے میں جہاں اپوزیشن کی سیاست نون لیگ کے خلاف ارتکاز چاہتی ہے، پیپلزپارٹی کی آزاد اپوزیشن والی پوزیشن اسے ایک نئی سیاسی زندگی دے سکتی ہے۔ یہ صرف پارلیمنٹ کے اندر کی تبدیلی نہیں، بلکہ گراؤنڈ پر پارٹی کی تنظیمی توانائی کے احیاء کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ دو مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کا حالیہ سیاسی اشتراک وقتی حالات کا جبر بھی ہے اور جمہوری نظام کو ایک سیاسی فتنے سے محفوظ رکھنے کی مجبوری بھی۔ لیکن بالآخر ان دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل آ کر سیاست کرنی ہے، یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اور تقاضا بھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل میں جب یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی، تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، کردار کشی یا ذاتی حملوں کی بجائے ایک باوقار اور اصولی جمہوری مقابلے کو فروغ دیں گی۔ اگر میثاق جمہوریت کے مطابق تہذیب، برداشت اور جمہوری اقدار کی سیاست پنپتی ہے تو نہ صرف سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی، بلکہ جمہوریت بھی مضبوط ہو گی۔ اگر پیپلزپارٹی اپوزیشن میں آتی ہے تو اسے موقع ملے گا کہ وہ اپنی صفیں درست کرے، عوامی رابطہ مہم تیز کرے، اور اپنی پوزیشن کو واضح کرے۔ اقتدار کے بوجھ سے آزاد ہو کر وہ عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دے سکتی ہے، جیسے مہنگائی، بےروزگاری، کسانوں کے مسائل، اور وفاقی اکائیوں کے تحفظ کی باتیں جن پر حکومتی اتحاد میں رہ کر کھل کر بات کرنا ممکن نہیں۔
پیپلزپارٹی اگر مستقبل میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے حامی اپوزیشن اراکین کا نمبر زیادہ ہونے کی وجہ سے چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی بطور اپوزیشن لیڈر ممکنہ نامزدگی نہ صرف پیپلزپارٹی کے لیے ایک نیا باب ہو گا بلکہ قومی سیاست کے لئے بھی ایک خوشگوار تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ گزشتہ چند برسوں میں پی ٹی آئی کی غیر مؤثر پارلیمانی کارکردگی کی وجہ سے اپوزیشن کا جو خلا پیدا ہوا وہ پیپلزپارٹی کی تعمیری اور دلیل پر مبنی اپوزیشن سے پُر ہو سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جو پہلے ہی اقوام متحدہ، یورپی پارلیمان اور عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں، اگر ایوانِ زیریں میں حزبِ اختلاف کی قیادت سنبھالتے ہیں، تو سیاسی مکالمے کا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ بطور قائد حزب اختلاف بلاول بھٹو زرداری کو قومی سطح پر ایک فعال، آئینی اور جمہوری اپوزیشن رہنما کے طور پر ابھرنے کا موقع ملے گا، جو مستقبل میں وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر اُن کی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔ مؤثر اپوزیشن نہ صرف حکومت کے احتساب کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ عوامی اعتماد حاصل کرنے کی سب سے اہم سیاسی نکتہ چینی بھی یہی پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔
قومی اسمبلی میں بہت سے ایسے آئینی یا انتظامی امور ہیں جن میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت ناگزیر ہے مثلاً نگراں سیٹ اپ، نیب چیئرمین، چیف الیکشن کمشنر یا دیگر کلیدی اداروں کی سربراہی۔ پی ٹی آئی کی غیر لچکدار پالیسیوں کی وجہ سے ان معاملات پر جمود طاری رہا ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری یہ عہدہ سنبھالتے ہیں تو مشاورت کا یہ عمل دوبارہ بحال ہو سکتا ہے، جس سے جمہوری عمل کو تقویت ملے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کے اپوزیشن لیڈر بننے سے یہ صرف ایک عہدے کی تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ یہ پاکستانی سیاست کی روح میں ایک تازگی، ایک نیا رخ، اور ایک نظریاتی احیاء ہو گا۔ یہ اس سیاست کی واپسی ہو گی جو دلیل، تحمل، اور آئینی عمل پر یقین رکھتی ہے۔ یہ اس نوجوان قیادت کا آغاز ہو گا جو نفرت، انتشار اور انتقام کے بیانیے کی بجائے مکالمہ، قانون اور جمہوریت کا بیانیہ لے کر آگے بڑھے گی۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے اپوزیشن بینچوں پر جانے کے فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی کو اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی گورنریاں واپس کرنی پڑیں تو بھی یہ ایک علامتی نقصان ہوگا۔ سیاسی سرمایہ تو اصولی مؤقف سے حاصل ہوتا ہے، مراعات سے نہیں۔ یہ وہی پیپلزپارٹی ہے جو ماضی میں آمریت کے خلاف سینہ تان کر کھڑی رہی، جس نے آئین کی بالادستی کے لیے قربانیاں دیں، اور جس نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کو تحفظ دیا۔ اگر آج وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر آئینی ترمیم، جمہوری استحکام اور قومی مفاہمت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے تو یہ محض حکمتِ عملی نہیں بلکہ نظریاتی تسلسل بھی ہوگا۔
سیاست میں کردار بدلتے رہتے ہیں، مگر تاریخ ان جماعتوں کو یاد رکھتی ہے جو اصولوں پر ڈٹی رہتی ہیں اور وقتی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے لیے اب وقت ہے کہ وہ اپنی سیاسی میراث کو ایک نئی توانائی دے، اپنی پہچان کو ازسرِنو متعین کرے اور قومی سیاست میں ایک فعال، بالغ اور متوازن اپوزیشن کی صورت میں خود کو منوائے تو یہ ایک طویل المدت فائدے کی حکمتِ عملی ہو گی۔ یہی وہ موڑ ہو سکتا ہے جہاں سے پیپلزپارٹی کا سفر ایک نئی منزل کی طرف شروع ہو، نظریاتی وضاحت، تنظیمی احیاء، اور عوامی اعتماد کی بحالی کی طرف۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کا سنجیدہ، شائستہ، اور نتیجہ خیز اپوزیشن کا کردار نہ صرف پاکستان کی جمہوریت کے لیے نیک شگون ہو گا بلکہ ملک کے نوجوانوں کے لیے بھی ایک مثبت سیاسی مثال قائم کرے گا۔ شائد اب وہ لمحہ آ گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے اس تاریخی کردار کی طرف لوٹے، ایک زندہ، متحرک اور بااصول اپوزیشن کے طور پر، جو نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ مستقبل کے جوابات بھی فراہم کرے۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

ہم خیال چاہئے کالم

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.