صدر زرداری کے خلاف پراپیگنڈا ۔ کون خوفزدہ ہے؟
تحریر: عثمان اعوان

پاکستان کی سیاسی فضا میں افواہوں کا زور کبھی کم نہیں ہوتا، لیکن جب ایسی افواہیں کسی معروف صحافی کی زبان سے سامنے آئیں، تو معاملہ محض قیاس آرائی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسے باقاعدہ سیاسی ہتھکنڈے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں اعزاز سید کی طرف سے صدر آصف علی زرداری کو ہٹانے کی خبر اسی طرز کی ایک مثال ہے۔ یہ “خبر” نہ صرف غیر سنجیدہ اور غیر مصدقہ تھی بلکہ یوں محسوس ہوا جیسے کسی خاص سیاسی ایجنڈے کو صحافت کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیا جا رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی خبر تھی؟ یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ؟
اعزاز سید نے بڑے وثوق سے دعویٰ کیا کہ صدر کو ہٹانے کی تیاری مکمل ہے، لیکن نہ کوئی آئینی بنیاد، نہ کسی قانونی پیش رفت کا ذکر، اور نہ ہی کوئی مستند ذرائع۔ اس کے برعکس، وزیراعظم سے قریبی تعلق رکھنے والے حکومتی اتحاد کے ایک سینئر رہنما نے واضح کیا کہ صدر زرداری کو ہٹانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ اس تضاد نے خود ہی اس “خبر” کی حقیقت کھول دی۔
یہ افواہ ایسے وقت میں سامنے آئی جب پیپلز پارٹی، خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری، وفاق اور پنجاب میں نئے جوش و جذبے کے ساتھ متحرک ہو رہے ہیں۔ صدر زرداری ایک متوازن، آئینی کردار ادا کر رہے ہیں، اور پیپلز پارٹی کی تنظیمی سرگرمیاں ملک بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ایسے میں صدر کو متنازع بنانے کی کوشش محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک سوچی سمجھی مہم لگتی ہے، جس کا مقصد نہ صرف پیپلز پارٹی کے بڑھتے بیانیے کو کمزور کرنا ہے بلکہ وفاق میں اس کے کردار کو محدود کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، یہ وہی پرانی سیاست ہے جس میں افواہوں، دباؤ، اور پراپیگنڈے کے ذریعے مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ م لیگ، جس کی حالیہ کارکردگی عوامی سطح پر مایوس کن رہی ہے، شاید بلاول بھٹو کی مقبولیت اور صدر زرداری کے آئینی وقار سے خائف ہے۔ ایسی صورت میں یہ بعید از قیاس نہیں کہ اس طرح کی خبریں جان بوجھ کر “پلانٹ” کی گئی ہوں تاکہ بیانیے کو کنفیوز کیا جا سکے اور عوامی رائے پر اثر انداز ہوا جا سکے۔
صدر آصف علی زرداری اُن معدودے چند سیاستدانوں میں سے ہیں جنہوں نے ہر طوفان کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ سیاسی فہم و فراست سے اسے اپنے حق میں موڑ دیا۔ وہ جھوٹے مقدمات، طویل اسیری، اور شدید میڈیا ٹرائلز کے باوجود اپنے اصولوں پر قائم رہے اور ہر بار سرخرو ہوئے۔ آج وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ریاستی وقار کے امین بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ان کے خلاف جھوٹی خبریں ان لوگوں کی مایوسی کا ثبوت ہیں جو انتخابی میدان میں شکست کے خدشے سے گھبرا چکے ہیں۔
اعزاز سید کی یہ “خبر” درحقیقت ایک غیر ذمہ دارانہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اس سے نہ صرف صحافتی اقدار مجروح ہوئیں بلکہ اُن سیاسی چالوں کا پردہ بھی چاک ہوا جو جھوٹ کو ہتھیار اور پراپیگنڈے کو حکمتِ عملی سمجھتی ہیں۔ مگر یہ دور بدل چکا ہے۔ عوام اب سادہ نہیں رہے۔ وہ پہچان چکے ہیں کہ کون خدمت کر رہا ہے اور کون فریب۔ صدر زرداری پر عوام کا اعتماد قائم ہے، اور بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر قومی سیاست کی ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ وقتی افواہیں شاید شور پیدا کریں، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار سچ ہی ابھرتا ہے اور جھوٹ، چاہے جتنا بھی زور لگا لے، انجام کار مٹ جاتا ہے۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

ہم خیال چاہئے کالم

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.