ایوان صدر پر سازش کا سایہ
ایوان صدر پر سازش کا سایہ

ایوان صدر پر سازش کا سایہ
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستانی سیاست میں افواہیں محض قیاس ارائیاں نہیں ہوتیں، بعض اوقات یہ کسی پوشیدہ خواہش، نادیدہ حکمتِ عملی یا خفیہ ایجنڈے کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ یہی کچھ حالیہ دنوں میں ایک سینئر صحافی اعزاز سید کی خبر کے ساتھ ہوا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ صدر آصف علی زرداری سے استعفیٰ لئے جانے پر کام ہو رہا ہے اور ان کی جگہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو صدر بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس خبر نے سیاسی و صحافتی حلقوں میں بے چینی ضرور پیدا کی، لیکن ذرا سا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خبر حقیقت سے زیادہ فضا سازی کا حربہ محسوس ہوتی ہے۔ آئینی اعتبار سے دیکھا جائے تو صدر مملکت کا عہدہ کسی بھی حاضر سروس فوجی افسر کے لیے دستیاب نہیں۔ اگر کسی سابق یا حاضر سروس فوجی کو صدر بنانا ہو تو نہ صرف اسے مکمل طور پر سویلین حیثیت اختیار کرنا ہوگی اور کسی بھی ایسے عہدے کے لئے اہلیت کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک انتظار بھی کرنا ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ فیلڈ مارشل ایک تاحیات اعزازی عہدہ ہے اور فیلڈ مارشل کے عہدے کے ساتھ صدر بننے کے لئے آئین میں ترمیم بھی ناگزیر ہو گی۔ آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو کہ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پیپلزپارٹی جو اس وقت ایوانِ صدر کی نمائندہ جماعت بھی ہے اس کی جانب سے ایسی کسی غیر آئینی ترمیم کی نہ ماضی میں کبھی حمایت کی گئی ہے اور نہ اب اس کی جانب سے ایسی کسی غیر آئینی ترمیم کی حمایت متوقع ہے۔
خبر کے دوسرے حصے میں یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ آصف علی زرداری ممکنہ طور پر طبی وجوہات کی بنا پر مستعفی ہو سکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی انہی افراد کا ہو سکتا ہے جو زرداری صاحب کو محض نام سے جانتے ہیں، کردار سے نہیں۔ زرداری صاحب کی سیاسی زندگی آزمائش، حراست، بیماری، تنہائی اور مزاحمت سے بھری ہوئی ہے۔ گیارہ سال کی قید، بے شمار مقدمات، جسمانی کمزوری، عدالتی جنگیں سب برداشت کیں، مگر کبھی ہار نہیں مانی۔ ایسے شخص سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خاموشی سے محض خرابیٔ صحت کا عذر تراش کر مستعفی ہو جائے گا، ایک جذباتی بلکہ سطحی مفروضہ ہے۔ آج بھی پارٹی کے اہم فیصلے زرداری صاحب کی مشاورت سے ہوتے ہیں، پالیسی بیانات میں ان کی جھلک ہوتی ہے اور حکومتی سطح پر اتحادی سیاست میں ان کا وزن سب سے زیادہ ہے۔
تاہم اس افواہ کے پھیلاؤ کے پس منظر میں صرف میڈیا کی سنسنی خیزی یا خبر دینے کی دوڑ ہی کارفرما نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ روایت رہی ہے کہ جب کسی ادارے کے اندر سے طاقت کا ارتکاز تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے تو بعض عناصر مستقبل کی سیٹنگ کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی طاقتور حلقے میں یہ خواہش پنپ رہی ہو کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بطور صدر آگے لا کر مستقبل میں آرمی چیف کے عہدے کے لیے کسی پسندیدہ شخصیت کے لیے راستہ صاف کیا جائے۔ صدر کا عہدہ چونکہ تینوں مسلح افواج کا آئینی کمانڈر اِن چیف ہوتا ہے اس لیے یہ مفروضہ کہ ادارے کے اندر سے ہی کوئی عنصر اس “سیاسی انجینئرنگ” کے لیے راہ ہموار کر رہا ہو، مکمل طور پر خارج از امکان نہیں۔
ایسے کسی ایجنڈے کو ممکن بنانے کے لیے سب سے پہلے سیاسی فضا میں یہ تاثر دینا ضروری ہے کہ صدر زرداری کا جانا یقینی ہے۔ پھر یہ رائے قائم کروائی کروائی جائے گی کہ ان کی جگہ ایسا شخص آ سکتا ہے جو “سیاست سے بالاتر، قومی مفاد کا محافظ” ہو۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو ہر آمر یا نیم آئینی تجربے کے لیے تیار کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ اب نہ میڈیا ویسا تابع دار ہے اور نہ سیاست دان اتنے کمزور کہ کسی غیر آئینی تبدیلی کی کوشش پر خاموش رہیں۔
صدر زرداری کی تبدیلی کی افواہوں کا ایک مقصد پیپلزپارٹی کو دباؤ میں لانا بھی ہو سکتا ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی پر سسٹم بچانے کا بوجھ کسی حد تک کم ہو گیا ہے اور نون لیگ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر سادہ اکثریت میں آ سکتی ہے۔ ایسے میں اگر اب نون لیگ طاقت کے زعم میں اپنی من مانی پر اترتی ہے تو پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بغض حلقوں کی جانب سے قیادت کو یہ مشورہ دیا بھی جا رہا ہے تو ایسے میں صدر کی تبدیلی کا شوشا چھوڑے جانے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو ایسے کسی بھی ارادے سے باز رکھنے کے لئے دباؤ میں لایا جا سکے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعض حلقے اب بھی پاکستان کو انیسویں یا بیسویں صدی کی ریاست سمجھتے ہیں جہاں بند کمروں میں فیصلے ہوتے تھے اور عوام اگلے دن اخبار میں پڑھ کر حیرت زدہ ہو جاتے تھے۔ مگر آج کے پاکستان میں ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب، عدالتیں، پارلیمنٹ، اپوزیشن، شہری سوسائٹی سب فعال ہیں۔ ایسی کسی بھی انجینئرنگ کے خلاف نہ صرف شدید عوامی ردعمل آئے گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی جمہوریت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔
حالیہ افواہوں سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ حلقے اب بھی تجربے کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی حالات، پارلیمانی ترکیب، اور زمینی حقائق ایسے کسی “فوجی صدر” ماڈل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آئندہ دنوں میں اگر ان افواہوں کی شدت بڑھی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ پس پردہ ضرور چل رہا ہے۔ لیکن جب تک آئینی، سیاسی اور عوامی قوتیں بیدار ہیں، ایسی کوششیں صرف خلائی خواہشات ہی رہیں گی، زمینی حقیقت نہیں بن سکتیں۔
لہٰذا، صدر زرداری کے استعفے، طبی عذر یا فیلڈ مارشل کے ایوانِ صدر میں بیٹھنے کی خبریں، سب غیرسنجیدہ اور غیرحقیقی بیانیے ہیں، جنہیں سیاسی بلوغت، آئینی دانش اور عوامی شعور سے مسترد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسی کوئی بھی تبدیلی صرف اسی وقت ممکن ہے جب جمہوریت کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دی جائے یعنی آئین، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، اور عدلیہ سب غیر مؤثر کر دیے جائیں۔ لیکن موجودہ حالات میں ایسا کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ بظاہر کسی طاقتور فریق کی خواہش بھی نہیں۔ پاکستان آج جس معاشی، سفارتی اور داخلی تناؤ سے گزر رہا ہے، وہاں ایسی کسی غیر آئینی مہم جوئی کی گنجائش نہ عالمی سطح پر ہے اور نہ قومی اداروں کے اندر۔ امیدہے کہ یہ افواہیں وقت کے ساتھ دم توڑ دیں گی، اور زمینی حقیقت اپنی جگہ برقرار رہے گی
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

ہم خیال چاہئے کالم

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.