ہفتہ ،13 ستمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

پانچ جولائی کے سیاہ دن کے پہلے اور بعد

سید محمد عمار کاظمی

Editor

2 ماہ قبل

Voting Line

اس سے پہلے کہ پانچ جولائی کے سیاہ دن کے بعد پاکستان میں رُونما ہونے والی معاشرتی اور سماجی تبدیلیوں پر لب کشائی کروں، پس منظر اور سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے کچھ پہلے کی بھی بات کر لی جائے۔

پاکستان میں بارز، کیسینوز، نائٹ کلبز اور بازارِ حُسن پر پابندی:

اپریل 1977: ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی دباؤ پر شراب نوشی، کیسینوز، نائٹ کلبز، اور بازارِ حُسن پر پابندی لگائی۔
فروری 1979: جنرل ضیاء الحق نے Hudood Ordinance نافذ کیا، جس سے ان سرگرمیوں پر مکمل قانونی ممانعت اور سزاؤں کا نفاذ ہوا۔
Source: #chatGTP

اس میں کوئی دو رائے ممکن ہی نہیں کہ انیس سو ستتر کی پابندیوں سے پہلے تک کا پاکستان آج کے پاکستان سے زیادہ روشن خیال تھا۔
البتہ پاکستان کے ایک مکمل بنیاد پرست ریاست بننے کا حتمی فیصلہ پانچ جولائی کے بعد ہوا۔ بنیاد یقیناً پہلے رکھی گئی، مگر عملدرآمد مارشل لاء کے دورِ حکومت میں شروع ہوا۔
اسی دن کے بعد سے یہاں عسکریت پسندی پروموٹ ہوئی۔ فرقہ واریت کی لہر گو پہلے سے موجود تھی، مگر ایسی کبھی نہ تھی جو پانچ جولائی کے بعد سے شروع ہوئی۔

سندھ، پنجاب، پختونخوا، بلوچستان سمیت ہر جگہ دینی مدارس کی یلغار ہوئی۔ عسکریت پسندی اور دہشتگردی پروموٹ ہوئیں۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔
بہت کم عمری میں (عمر یاد نہیں) چونیاں جیسے شہر میں تھیٹر دیکھے۔ ڈانس دیکھے۔ دیہاتی شادیوں میں گدا پڑتے دیکھا۔
مگر چونکہ یہ سب سرگرمیاں پاکستان کے "اسلام کا قلعہ" بننے میں رکاوٹ سمجھی جا رہی تھیں، لہٰذا ان سب پر پابندی لگی۔

جنرل ضیاء کی تخلیق کردہ جماعت اور لیڈرشپ – مسلم لیگ نواز اور میاں محمد نواز شریف صاحب، جو میثاقِ جمہوریت کے بعد سے ہمارے اتحادی ہیں – ان کے دور میں لاہور کے سب سے بڑے میلے "میلہ چراغاں" پر پابندی لگی، بسنت پر پابندی لگی، میلوں اور کبڈی کے مقابلوں پر پابندی لگی۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت پر کبھی اپنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی۔
اس پکڑ کو مضبوط رکھنے کے لیے محترمہ شہید اور میاں نواز شریف صاحب کی متعدد حکومتیں ختم کی گئیں۔ میاں صاحب کو متعدد بار حکومت سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

پانچ جولائی سے ذرا پہلے سے لے کر آج تک، نہ پاکستانی عوام کو یہ سمجھ آ سکی کہ وہ کوئی معتدل مزاج مسلم جمہوریہ ہیں، نہ ہماری جماعت کو یہ سمجھ آ سکی کہ ہم کوئی دینی جماعت ہیں یا پھر ایک روشن خیال جمہوری جماعت ہیں۔
ہم مذہب، روشن خیالی اور جمہوریت کے درمیان کنفیوژڈ کھڑے ہیں۔

ہمارا شہید لیڈر، جس نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر اسلامک بلاک بنانے کی کوشش کی، اس کے مسلمان ہونے پر شک کیا گیا اور اس کے عدالتی قتل کے بعد اس کے ختنے چیک کروائے گئے۔

بہرحال اس سب کے باوجود ہم بطور جماعت کوئی واضح بیانیہ، کوئی واضح نظریہ نہیں پیش کر سکے کہ ہم ایک لبرل، سیکولر، روشن خیال، بائیں بازو کی جماعت ہیں یا پھر دائیں بازو کی کوئی بنیاد پرست مذہبی جماعت۔

ہماری شہید لیڈر کو مغرب کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ شادی جیسے انتہائی ذاتی فیصلے پر پراپیگنڈا کیا گیا۔
اس کے ایمان اور کردار پر بھی گھٹیا سوال اٹھوائے گئے۔

یہ سب جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد کی پیش قدمی تھی۔ وہ مولوی، جنھوں نے بھٹو شہید کی حکومت اور اسمبلی کو بلیک میل کر کے مختلف فیصلے کروائے، وہ تاریخ کے سیاہ ترین دور میں ایک فوجی آمر کے کَمین بنے رہے۔

پانچ جولائی کے منحوس دن کے بعد ہی سرد جنگ میں ہم امریکہ اور سعودیہ کے آلہ کار بنے۔
ہمارے جرنیلوں نے نام نہاد افغان جہاد میں ہم سے امریکی پراکسی کا رول پلے کروایا۔

اسی منحوس دن کے بعد ہی یہاں سعودی اور (بعض دیگر عرب ریاستوں) اور ایرانی پراکسیز نے جنم لیا۔ تکفیر اور فرقہ واریت عروج پر پہنچی۔

آج جنھیں خوارج کے نام سے پکارا جا رہا ہے، یہ کانٹوں بھرے درخت بھی ہماری پراکسیز کی دین ہیں۔ جس کی ہمارے اداروں نے پرورش کی ۔ یہ بھی پانچ جولائی کے بعد کی ڈیولپمنٹ ہے۔

پانچ جولائی کو ہی ایک بار پھر عوام کو بتایا گیا کہ ان کی پسند ناپسند کی کوئی حیثیت نہیں۔

چند برس پہلے میری ایک کزن کے میاں، جو اُس وقت حاضر سروس کرنل تھے اور بڑے ہی کریئر آفیسر تھے (مگر بدقسمتی سے آگے نہ بڑھ سکے، تو ریٹائرمنٹ لینا پڑی)، وہ اپنے دفتر میں بیٹھے نیازی حکومت کے دوران فرمایا کرتے تھے کہ:
"اب ہمیں (سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو) مارشل لاء لگانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ہم نے ماڈل ہی ایسا بنا لیا ہے کہ ہم عدالتوں سے ہی سب فیصلے لے لیتے ہیں۔"

وہ پہلے مشرف کے، پھر میاں نواز شریف کے، اور اس کے بعد سے عمران خان کے حمایتی ہوا کرتے تھے۔
ہماری جماعت، جو اسی فارمولے کی تائید و توثیق میں آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، یہ واقعہ اس کے صاحبِ دانش، صاحبِ رائے اور صاحبِ بصیرت افراد کے لیے نصیحت کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔

پانچ جولائی کے سیاہ دن سے آج تک ہم نے اُلٹے پاؤں سفر طے کیا ہے۔
ہم ہر گزرتے دن کے بعد اس ریاست کو بنیاد پرست بناتے چلے گئے ہیں۔ ہر آنے والے نے مذہب کو اقتدار کی بیساکھی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

پراجیکٹ عمران احمد خان نیازی بھی پانچ جولائی کے بعد کی پیش رفت ہے۔
اس نے بھی اپنی سیاست کو "اسلامک ٹچ" دیا اور معروف لیڈر بنا۔
اور پھر اسلامک ٹچ والوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور قوت کے ہاتھوں رسوا ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا۔

پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پراجیکٹ عمران 2002 میں شروع ہوا۔
ہماری موجودہ قیادت بھی اسی طرف اشارہ کرتے کہہ چکی کہ ہم سیاست کو 2002 والی پوزیشن پر لے کر جانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے پہلے پراجیکٹ عمران موجود نہیں تھا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ بھی جنرل ضیاء اپنی زندگی میں ہی بطور صدرِ پاکستان، عمران کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس کروا کر شروع کروا چکا تھا۔
وہ بھی یہ سمجھتا تھا کہ اسپورٹس ہیرو کو شہید محترمہ کے مقابلے میں نواز شریف کے متبادل کے طور پر بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس وقت حالات ایسے نہ تھے۔ ضیاء مر گیا، اور یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے التوا کا شکار ہو گیا۔

درحقیقت یہ محض اتفاق نہیں کہ ’پراجیکٹ عمران‘ کا آغاز ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ ایک ایسا آمر، جو چھببیس ہزار فلسطینیوں کے قتل میں ملوث رہا۔ ہرچند کہ جرنل ضیاء 17 اگست 1988 میں مر گیا تھا مگر وہی عمران کو 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کا پلیٹ فارم فراہم کر کے گیا.
یہیں سے کھیل میڈیا اور مذہب کو سیاسی ایجنڈے کے تحت استعمال کرنے کی بنیاد پڑتی ہے۔ حکیم سعید جیسے لوگ بھی بعد میں عمران کے سیہونی عزائم پر سوال اٹھاتے رہے۔ یہ محض سیاست نہیں، بلکہ ایک طویل المدت منصوبہ بندی کا حصہ تھا، جس کا مقصد عوامی ذہن سازی اور عالمی مفادات کے تابع نیا سیاسی چہرہ متعارف کرانا تھا. تاہم جب تک پھر محترمہ شہید نہیں ہو گئیں، اسے کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

لہٰذا یہ سوچ قطعی طور پر غلط ہے کہ پراجیکٹ عمران 2002 میں شروع ہوا یا اسے ختم کرنے کے لیے ہمیں سیاست کو 2002 والی پوزیشن پر لانا ضروری ہے۔
یہ دونوں باتیں اور اندازے غلط ہیں۔

اگر پاکستان کو کوئی ترقی پسند، پروگریسو جمہوری ریاست بننا ہے تو ہمیں اسے 1977 میں واپس جا کر غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔

ہمیں بطور سیاسی جماعت درمیان والی سوچ سے نکل کر اس ملک کی عوام کو واضح لائن دینی ہوگی کہ ہم بنیاد پرستی کے حق میں نہیں ہیں۔
ہم نے جو جوئے اور شراب کے اڈے بند کروائے اور بالخصوص جو بازارِ حُسن بند کروائے، ان کے بند کرنے سے ہم نے معاشرے کے گٹر بند کیے، اور گندا پانی گھر گھر داخل کروایا۔

آج ہر علاقے میں "مساج سینٹر" بنے پڑے ہیں۔ کسی کو نہیں پتا گلی محلے میں شریف لوگوں کے گھروں کے ساتھ کوئی دھندے والا گھر بھی بیٹھا ہے۔
یہ سب فیصلے عقل و شعور سے عاری فیصلے تھے۔ ان کی ناکامی دیوار پر لکھی ہے، ثابت شدہ ہے۔

ہم کہ جن کی قیادت تمام عمر کمزور اور جانبدار عدلیہ کی وجہ سے سفر کرتی رہی، آج چھبیسویں ترمیم لے کر بیٹھی ہے۔
کل جب ہم اقتدار میں نہیں رہیں گے تو ہم کس کے پاس جائیں گے؟

ہم نے چند کے علاوہ ضیاء دور کے بعد ہونے والی بیشتر خرابیوں پر کوئی مزاحمت نہیں کی۔
ہمیں بطور حقیقی جمہوری جماعت اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

سندھ جو نسبتاً روشن خیال صوبہ تھا ضیاء دور کے بعد سے اب تک وہاں پانچ ہزار مدارس بن چکے ہیں، جو ظاہر ہے کہ وہاں کوئی اسلام کا روشن اور معتدل چہرہ پیش نہیں کر رہے۔
ہم نے ان کے خلاف بھی کوئی خاطر خواہ مزاحمت نہیں کی. 

جنرل ضیاء سے پہلے آمر مذہبی انتہا پسند نہیں تھے۔
لہٰذا انھوں نے پاکستانی سماج کو اس طرح نقصان نہیں پہنچایا جیسا نقصان ضیاء دور کے بعد پہنچا۔ 

ہمیں کُھلے دل، روشن دماغ کے ساتھ اپنے نظریات کی تصحیح کرنے کی ضرورت ہے!

Comments

No comments yet.

Effy Jewelry