پانچ جولائی تاریخ کا سیاہ باب، شعورِ عوام کا امتحان
بقلم: نعیم بلوچ

پانچ جولائی 1977 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جب نہ صرف جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا، بلکہ محنت کش عوام کی دہائیوں پر محیط شعوری و انقلابی جدوجہد کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی۔ یہ تاریخ محض ایک مارشل لا کے نفاذ کا اعلان نہیں، بلکہ ایک مکمل طبقاتی کاؤنٹر ریولوشن (Counter Revolution) تھا جو اس سوچ کے خلاف برپا کیا گیا، جس کے مطابق اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں، اور ریاست کا مقدس فریضہ انسان کی آزادی، مساوات اور وقار کا تحفظ ہے۔
پیپلز پارٹی سیاست نہیں، مزاحمت کا نام ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ایک ایسے فکری و نظریاتی منشور پر رکھی گئی جو پاکستان میں رائج استحصالی نظام کو چیلنج کرنے کا اعلان تھا۔ یہ جماعت استوار ہوئی عوامی حاکمیت کے تصور پرمتحرک ہوئی معاشی انصاف کے وعدے پرمضبوط ہوئی طبقاتی نظام کی بیخ کنی کے عزم پر ذوالفقار علی بھٹو نے "اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" جیسے انقلابی نعروں کے ذریعے پاکستان کی سیاسی روح کو جھنجھوڑا، اور محکوم طبقات کے لیے حوصلہ، ہمت، اور امید کا پیغام دیا۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا صرف ایک فرد کا اقتدار پر قبضہ نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کی اس عوامی تحریک کے خلاف ایک منظم سامراجی و طبقاتی سازش تھی، جو جاگیرداری، سرمایہ داری، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور رجعت پرستی کے گٹھ جوڑ کے لیے ناقابلِ برداشت بن چکی تھی۔ اس دن پارلیمان کو معطل کر دیا گیا آئین کو پامال کر دیا گیا عوامی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اظہارِ رائے، طلبہ سیاست، خواتین کی تحریک، اور مزدوروں کی تنظیموں پر قدغن لگا دی گئی گویا ریاست کو عوام سے الگ کر کے اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بنا دیا گیا۔
اس ظلم کے خلاف جس والہانہ جرأت اور ایثار کا مظاہرہ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے کیا، وہ پاکستان کی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ یہ وہ کارکن تھے جو "زندہ ہے بھٹو" کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیاء کے کوڑوں پر مسکراتے رہےجو قید و بند، اذیت خانوں، جلاوطنی اور ریاستی جبر کے باوجود نظریے پر ڈٹے رہے جنہوں نے شہادت، قربانی اور صبر کو انقلابی وقار کا زیور بنا لیا جنہوں نے تختہ دار کو جھولا سمجھا، مگر ضمیر کا سودا نہ کیا یہ لوگ کوئی نام نہاد سیاستدان نہیں، بلکہ وہ فکری و عملی انقلابی تھے جنہوں نے "اقتدار برائے عوام" کے فلسفے کو اپنے خون سے زندہ رکھا۔
آج کا المیہ مجازی انقلابی، حقیقی گمشدگی ہے بدقسمتی سے آج جب ہم پانچ جولائی کی بات کرتے ہیں تو اکثر صرف ٹویٹس، فیس بک پوسٹس، اور رسمی تقریروں تک محدود ہو جاتے ہیں۔آج ایسے "انقلابی" بھی دکھائی دیتے ہیں جو نظریہ بھٹو کو صرف سوشل میڈیا ہیش ٹیگ میں محدود کر چکے ہیں جن کی سیاسی موجودگی صرف تصاویر اور تعریفی تحریروں تک ہے جنہیں عوامی محنت کش طبقے سے نہ کوئی ربط ہے نہ ہمدردی اور جو تنظیمی، سیاسی یا فکری تربیت سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں ایسے افراد دراصل نظریہ فروشی کے عادی ہیں، جو "جیالا" جیسے عظیم لقب کو مجازی تماشے میں تبدیل کر رہے ہیں۔آج وقت ہے کہ ہم اس عظیم نظریے کی طرف لوٹیں جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے جنم لیا تھا۔یہ نظریہ واضح ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل غربت، بیروزگاری، تعلیم کی کمی، قومی جبر، مذہبی انتہا پسندی، بدعنوانی کا واحد حل طبقاتی نظام کا خاتمہ اور ایک برابر، سوشلسٹ، انسانی بنیادوں پر استوار معاشرے کا قیام ہے۔
پارٹی کو محض انتخابی مشین نہیں بلکہ انقلابی تحریک بنایا جائے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نو نظریات پر تعمیر کیا جائے نوجوانوں کو سیاسی تربیت، فکری پختگی اور انقلابی شعور فراہم کیا جائے پارٹی کا بیانیہ عوامی مسائل کے طبقاتی تجزیے پر مبنی ہو اور قیادت کو محنت کشوں، نوجوانوں، طلبہ، کسانوں اور اقلیتوں کے حقیقی نمائندوں میں منتقل کیا جائے اگر ہم نے خود احتسابی، خود شناسی اور فکری اصلاح کی طرف پیش قدمی نہ کی، تو ہم صرف ایک جذباتی ماضی کی پرستش کرتے رہ جائیں گے اور پارٹی، جسے انقلاب کی ماں ہونا تھا، تاریخ کی کتابوں کا ایک سادہ باب بن کر رہ جائے گی۔
آئیں! آج کے دن صرف سیاہ پٹیاں نہ باندھیں، بلکہ فکری زوال کے خلاف بغاوت کا آغاز کریں۔ بھٹو، بی بی، اور ان گمنام جیالوں کا قرض اتاریں جنہوں نے سب کچھ قربان کیا، تاکہ ہم آزاد، باوقار، اور برابر شہریوں کا معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوامی طاقت کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ہمیں ہر روز جدوجہد کا علم بلند کرنا ہوگا!
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

ہم خیال چاہئے کالم

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.