ہفتہ ،13 دسمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا، صوبائی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں: بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں اہم تقریر

دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا، صوبائی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں: بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں اہم تقریر

Editor

ایک ماہ قبل

Voting Line

 

اسلام آباد:: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کوئی حکومتی بنچوں پر بیٹھا ہو یا اپوزیشن بنچوں پر، پورے ایوان اور قوم کو سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی فوج، سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور عوام نے ماضی میں بھی دہشت گردوں کو شکست دی ہے اور وہ کارنامہ انجام دیا جو پوری دنیا بشمول نیٹو فورسز افغانستان میں نہ کر سکی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے عزم ظاہر کیا کہ پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرخرو ہوگا۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی اور پوری پیپلز پارٹی کی کوشش ہمیشہ قانون سازی کے عمل میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے پر مرکوز رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1973 کا آئین اور 18ویں ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور ہوئے تھے اور اسی جذبے کا اظہار 26ویں ترمیم کی منظوری کے دوران بھی کیا گیا جو طویل اور انتھک کوششوں کے بعد ممکن ہوئی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے یاد دلایا کہ پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا تھا جنہوں نے آگے چل کر پی ٹی آئی اور ایس آئی سی کو اس عمل میں شامل کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مولانا فضل الرحمان ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی بھی آئینی مشاورت کے عمل کا حصہ تھی چاہے انہوں نے ووٹ نہ دیا ہو۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کی رضامندی سے 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ 27ویں ترمیم دراصل چارٹر آف ڈیموکریسی میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی ایک کوشش ہے جس میں ایک آئینی عدالت کے قیام کا وعدہ بھی شامل ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بھارت پر پاکستان کی تاریخی فتح کے بعد یہ ترمیم آرٹیکل 243 کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دفاعی اداروں سے متعلق آئین میں کچھ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے زور دیا کہ کسی بھی قانون یا ترمیم کی اصل طاقت اس اکثریت میں نہیں ہوتی جو اسے منظور کرتی ہے بلکہ اس سیاسی اتفاقِ رائے میں ہوتی ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین آج بھی پاکستان کا غیر متنازع اور متفقہ آئین ہے کیونکہ اسے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں نے منظور کیا تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے واضح کیا کہ اس اتفاقِ رائے کو کوئی آمر یا جابر سیاست دان ختم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک آمر کو شکست دے کر حکومت سنبھالی تو انہوں نے 18ویں ترمیم منظور کی جو ایک ایسی تاریخی دستاویز تھی جس نے بنیادی جمہوری اصلاحات متعارف کرائیں اور صوبائی خودمختاری کو یقینی بنایا۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 18ویں ترمیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ وسیع سیاسی اتفاقِ رائے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ انہوں نے تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ اس پر صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے بتایا کہ حکومت نے ان سے مجوزہ ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ترمیم دفاعی ڈھانچے سے متعلق ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے متعلقہ اداروں سے مشاورت کی ہے۔ اسی طرح اگر یہ عدالتی اصلاحات سے متعلق ہے تو حکومت نے ججوں اور وکلا سے مشاورت کی ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ان سے بطور چیئرمین پیپلز پارٹی رابطہ کیا گیا اور انہوں نے یہ معاملہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے رکھا۔ طویل غور و فکر کے بعد پارٹی نے فیصلہ کیا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے وژن کی تکمیل کے لیے حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل اور پاکستان کی مسلح افواج کو دنیا بھر میں نریندر مودی کی حکومت کو تاریخی شکست دینے پر سراہا جا رہا ہے جب چھ بھارتی طیارے گرائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت نے دوسری سرحد پر افغانستان کے وزیرِ خارجہ کی میزبانی کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ اس تناظر میں پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 243 سے متعلق حکومتی سفارشات کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس کی بجائے اپنے قید رہنما کے لیے شور مچانے کو ترجیح دی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی لیکن کمیٹیوں میں شرکت اور اپنی تجاویز دینے کی ذمہ داری اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے جو انہوں نے ادا نہیں کی۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی حکومت پاکستان کی اس بات پر بھی تعریف کرتی ہے کہ اس نے تمام صوبوں کو نئی عدالتوں میں مساوی نمائندگی دینے کا مطالبہ قبول کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وفاق تبھی مضبوط ہوگا جب تمام صوبوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جو سیاسی قوتیں 27ویں ترمیم کی مخالفت کر رہی ہیں انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے کیونکہ پہلی مرتبہ ہر صوبے کو آئینی عدالتوں میں برابر کی نمائندگی دی جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے یاد دلایا کہ جب قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا تھا تو اس وقت کی عدالتی بینچ میں صوبوں کی مساوی نمائندگی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی اس ناانصافی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ جو لوگ صوبائی مساوات کی بات کرتے ہیں چاہے وہ اچکزئی صاحب ہوں یا کوئی اور، انہیں اس تاریخی پیش رفت کو سراہنا چاہیے جو تمام صوبوں کے درمیان حقیقی مساوات کو یقینی بناتی ہے۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور کے بعد تمام سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن از خود نوٹس کے بے جا استعمال سے متاثر ہوئیں۔ انہوں نے تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ عدالتیں ٹماٹر اور آلو کی قیمتیں مقرر کر رہی تھیں، ڈیم بنا رہی تھیں اور وزرائے اعظم، وزیروں اور منتخب نمائندوں کی توہین کر رہی تھیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اس ترمیم کے بعد از خود نوٹس کا اختیار ختم ہو جائے گا اور وہ تلوار جو عدالتوں نے وزرائے اعظم اور حکومتوں کے سروں پر لٹکائی ہوئی تھی ہمیشہ کے لیے ہٹ جائے گی۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے کئی نکات ایسے ہیں جن پر اب بھی عمل درآمد ہونا باقی ہے تاکہ ملک کو درپیش بحرانوں پر قابو پایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں سچائی اور مفاہمت کی طرف بڑھنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ملک شہباز شریف، اچکزئی اور عمران خان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی اور شہری کا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی تقسیم ختم ہو اور باہمی برداشت کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک سیاست دان ایک دوسرے اور اس ایوان کا احترام نہیں کریں گے ملک کو وہ طرزِ حکمرانی نہیں مل سکے گی جس کا وہ مستحق ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ وہ پارلیمنٹ سے منہ نہ موڑے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ جاری رکھے تاکہ موجودہ جمود کو جمہوری طریقے سے ختم کیا جا سکے۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اپنی ابتدائی مسودے میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبائی حکومتوں کو دی گئی آئینی ضمانت ختم کرنے کی تجویز دی تھی جسے پیپلز پارٹی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے واضح الفاظ میں کہا کہ جب تک وہ اس پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ کبھی بھی صوبوں کو دی گئی آئینی ضمانتیں واپس لینے کی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ملک مالی بحران پر قابو پا لے لیکن ایسی تجاویز دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہم صرف ایف بی آر کی اپنی اہداف پر ناکامی کی وجہ سے صوبائی حقوق پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ جن ٹیکسوں کو صوبوں کے حوالے کیا گیا ان کی وصولی ہمیشہ وفاق کی نسبت بہتر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی صوبوں سے کوئی حق واپس لینے کی حمایت نہیں کرے گی بلکہ وہ اس بات کے لیے آواز اٹھائے گی کہ وفاق ان صوبوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کیا کر سکتا ہے اور کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ایف بی آر یا دیگر وفاقی مالیاتی اداروں کی ناکامیوں کی سزا نہیں ملنی چاہیے بلکہ تمام صوبوں کو بااختیار بنایا جائے اور ان پر بہتر کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری عائد کی جائے۔

 

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ حکومت نے تعلیم اور آبادی کے محکمے دوبارہ وفاق کو منتقل کرنے کی تجویز دی ہے وہ اختیارات جو 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے اور جنہوں نے علیحدگی پسندی کی سیاست کو دفن کیا تھا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کے خلاف سرحد پار سے سازشیں ہو رہی ہیں، حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو علیحدگی پسند عناصر کو دوبارہ ابھارنے یا دشمنوں کی مدد کا باعث بنیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اختیارات کی واپسی یا این ایف سی ایوارڈ کے تحت دی گئی آئینی ضمانتوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی نے ججز کی تقرریوں و تبادلوں کے لیے ایک متوازن طریقہ کار تجویز کیا ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن متعلقہ جج کی رائے بھی لے سکے گا اور حکومت نے اس سفارش سے اتفاق کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے زبردستی ججز کو ریٹائر کرنے کے خیال کو واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے بنیادی فلسفے کا حصہ رہا ہے اور پارٹی اس حوالے سے مزید بات چیت کی متمنی ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ماہرین کا کوئی بھی پینل اس بات کی تصدیق کرے گا کہ سندھ میں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات دیگر تمام صوبوں سے بہتر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے حوالے سے موجودہ اتفاقِ رائے کو مزید آگے بڑھانے پر خوش ہوگی۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں پر تعطل ختم کرنے کے لیے پارٹی ایک جمہوری حل تلاش کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اختتام پر زور دیا کہ سیاسی جماعتیں ہی حکومت اور پارلیمنٹ کی اصل قوت ہیں اس لیے کوئی بھی قانون سازی اچانک نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر مجوزہ قانون پر بات چیت اور اتفاقِ رائے کے ذریعے تفصیلی غور ہونا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جمہوریت کی بقا اور ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں اور قومی مفاد کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔

Comments

No comments yet.

Effy Jewelry