ہفتہ ،13 دسمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

مقامی حکومتوں کے بل 2025 پر سیمنار کا انعقاد

بھٹو شہید فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اہم سیمنار

Editor

ایک ماہ قبل

 


 
 
لاہور: بھٹو شہید فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لوکل گورنمنٹ بل 2025 کے حوالے سے پیپلز سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک اہم سیمنار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمنار کی صدارت خان آصف خان نے کی جبکہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنگت زاہد اسلام اور آئیڈیا تھنک ٹینک کے سلمان عابد نے خصوصی خطاب کیا۔
 
 
سیمنار میں پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکنان کی کثیر تعداد نے شرکت کی جن میں فیصل میر، آصف بشیر بھاگٹ، بشریٰ منظور، مانیکا، ملک علی سانول، ملک اظہر اعوان، نصیر احمد، عارف خان، عامر نصیر بٹ، فاروق یوسف گھرکی، ڈاکٹر ضرار یوسف، رانا افتخار، فرخ مرغوب، وزیر اعوان، عمران کھوکھر ایڈووکیٹ، خالد گل، عارف ظفر، عبداللہ ملک، حمیرا لطیف، نادیہ شاہ، راو شجاعت، عامر سہیل، امین ذکی، اقبال خان، حمید اللہ خان اور طارق رفیق چودھری شامل تھے۔
 
 
ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنگت زاہد اسلام نے اپنے خطاب میں بتایا کہ لوکل گورنمنٹ بل 2025 سے پہلے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے سات قوانین بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2022 کے ایکٹ میں میونسپل کارپوریشنز نہیں بلکہ ضلع کونسلیں تھیں۔
 
الیکشن کمیشن نے چار مرتبہ حلقہ بندیاں جاری کیں اور تین مرتبہ الیکشن شیڈول جاری کر کے واپس لے لیا، جس سے صورتحال میں مسلسل ابہام برقرار رہا۔
 
 
موجودہ حکومت نے 26 مارچ کو نیا بلدیاتی بل اسمبلی میں پیش کیا جسے 13 اکتوبر 2025 کو پنجاب اسمبلی نے منظور کر لیا۔
 
زاہد اسلام نے بتایا کہ نیا قانون پرانے قانون سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے۔ اس میں دس محکمے تحصیل کی سطح پر منتقل کر دیے گئے ہیں۔ مری کو خصوصی سٹیٹس دے کر وہاں میونسپل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
 
 
نئے قانون کے تحت اب کوئی وارڈ، ضلع کونسل یا میونسپل کارپوریشن نہیں ہوگی۔ اب سیاسی جماعتوں کے پینل یا آزاد پینل پہلے مرحلے میں حصہ لیں گے۔
 
دیہی علاقوں میں تحصیل اور یونین کونسلیں ہوں گی جبکہ بڑے شہروں میں ٹاؤن اور چھوٹے شہروں میں میونسپل کمیٹیاں قائم ہوں گی۔
 
 
پہلے جو ڈسٹرکٹ اتھارٹیز تھیں، اب ان کے دس محکمے مختلف اتھارٹیز کو دے دیے گئے ہیں۔ ان میں پرائمری ہیلتھ، سکولز انرولمنٹ، سوشل ویلفیئر اور ڈسٹرکٹ سپورٹس کے محکمے شامل ہیں۔
 
 
زاہد اسلام نے بتایا کہ دنیا کے تیرہ ممالک میں لوکل گورنمنٹ کے مضبوط ادارے موجود ہیں۔
 
 
بالغ رائے دہندگی کے انتخابات میں صرف پہلے مرحلے میں نو افراد کا انتخاب ہوگا۔ نو ممبران میدان میں اترنے ہوں گے۔ یونین کونسل میں دس ہزار سے زیادہ ووٹرز نہیں ہوں گے۔
 
اقلیتوں، نوجوانوں، خصوصی افراد اور خواتین کی ایک ایک نشست مخصوص کی گئی ہے۔
 
 
 
زاہد اسلام نے کہا کہ قانون تو آ گیا ہے لیکن الیکشن رولز آنے کے بعد یہ واضح ہوگا کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے یا غیر جماعتی۔
 
موجودہ قانون میں ابہام موجود ہے۔ امیدوار سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی آ سکتے ہیں اور آزاد بھی۔ جیتنے والے امیدوار تیس دن کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک ہو سکتے ہیں۔
 
 
 
زاہد اسلام نے کہا کہ کنگز پارٹی بنانے والے اپنا پینل نہیں لاتے۔ حکومت کو چاہیے کہ یا تو نئے الیکشن رولز بنائے یا پھر 2017 کے الیکشن رولز پر عمل درآمد کرے۔
 
انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب اس ابہام کو دور کر سکتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ریسرچ اور ایڈووکیسی کے ادارے قائم کریں۔
 
 
 
آئیڈیا تھنک ٹینک کے سلمان عابد نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج تک یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی جماعتی نشان پر انتخاب لڑ سکے گا یا نہیں۔ یہ ابہام جان بوجھ کر کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
 
 
سلمان عابد نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140-A کے تحت بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ تاہم نئے متوقع بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔
 
نئے قانون میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے لفظ کی نفی کی گئی ہے جو کہ آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔
 
 
 
سلمان عابد نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سمیت اکثر سیاسی جماعتیں براہ راست انتخابات چاہتی ہیں۔ یونین کونسل کا بالواسطہ انتخاب غیر قانونی ہے۔
 
 
انہوں نے کہا کہ پہلے یہ طے کر لینا چاہیے کہ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ چلانی ہے، صوبائی حکومت نے یا بیوروکریسی نے۔
 
 
سلمان عابد نے کہا کہ تجاوزات، سالڈ ویسٹ سمیت تمام اتھارٹیاں صوبائی حکومت کے پاس ہیں جو ایک متوازی ڈھانچہ ہے۔ اگر اتھارٹی میں گیارہ ممبران سرکاری ہوں گے تو عوامی نمائندے کہاں گئے؟
 
 
انہوں نے کہا کہ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات میں منڈی لگتی ہے۔ میئر کے انتخابات براہ راست ہونے چاہئیں۔ میگا منصوبے پنجاب اسمبلی سے منظور نہیں کروائے جاتے۔
 
 
سلمان عابد نے بتایا کہ پنجاب میں دس برس سے مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ آئینی ترمیم ہونے تک مقامی حکومتوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
 
وفاقی، صوبائی اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹس کا دورانیہ ایک ہونا چاہیے۔
 
انہوں نے کہا کہ موجودہ لوکل گورنمنٹ قانون میں بے شمار خامیاں ہیں۔ کسی بھی صوبے میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد نہیں ہے۔
 
 
 
سلمان عابد نے کہا کہ اگر لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنا ہے تو آئینی ترمیم کرنا ہوگی۔ متوازی ڈھانچہ ختم کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو آرٹیکل 140-A کے تحت ڈسٹرکٹ گورنمنٹس کو مضبوط کرنا چاہیے۔
 
 
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ چلانے کے لیے دنیا میں چلنے والے نظام پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر نوکر شاہی کے ذریعے نظام چلایا گیا تو لوکل گورنمنٹ سسٹم ڈیلیور نہیں کر سکے گا۔
 
 
سلمان عابد نے بتایا کہ پہلے لوکل گورنمنٹ انتخابات لوکل اتھارٹیز کراتی تھیں لیکن اب الیکشن کمیشن کراتا ہے۔
 
خان آصف خان نے کہا کہ بھٹو شہید فاؤنڈیشن کا مقصد جمہوریت کے تسلسل اور خواتین، اقلیتوں اور نوجوانوں کے لیے کام کرنا ہے۔
 
 
فیصل میر نے کہا کہ پارٹی قیادت کی اجازت سے نئے لوکل گورنمنٹ بل کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
 
 
 
آصف بشیر بھاگٹ نے تجویز دی کہ پنجاب ایگزیکٹو کا اجلاس بلا کر نئے لوکل گورنمنٹ بل پر سفارشات مرکزی قیادت کو بھیجی جائیں۔
 
انہوں نے کہا کہ یہ بدنیتی پر مبنی قانون ہے جو سیاسی جماعتوں کو کمزور کرے گا۔ فوری طور پر اس پر پنجاب ایگزیکٹو کا اجلاس بلانا چاہیے۔
 
 
شرکاء نے اتفاق کیا کہ آزاد، غیر جانبدار اور مضبوط الیکشن کمیشن کے بغیر لوکل گورنمنٹ انتخابات ممکن نہیں ہیں۔
 
 
سیمنار میں شریک تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ لوکل گورنمنٹ کا نظام مضبوط کرنے کے لیے آئینی ترمیم، شفاف انتخابی عمل اور سیاسی جماعتوں کی فعال شرکت ضروری ہے۔ موجودہ قانون میں موجود ابہامات کو فوری طور پر دور کیا جانا چاہیے تاکہ حقیقی معنوں میں عوامی نمائندگی کا نظام قائم ہو سکے۔
 
 
Comments

No comments yet.

Effy Jewelry