نوٹیفکیشن کا اجرا
نوٹیفکیشن کا اجرا
نوٹیفکیشن کا اجرا
چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو طوفان بد تمیزی بپا کیا گیا اس پر تو بات ہو گی لیکن سب باتوں سے قطع نظر فیلڈ مارشل صاحب نوٹیفکیشن کے بغیر بھی 2027 تک آرمی چیف اور تا حیات فیلڈ مارشل تھے لیکن اب تو نوٹیفکیشن بھی ہو گیا۔ جہاں تک نوٹیفکیشن میں تاخیر کی بات ہے تو اس میں بظاہر تو وفاقی حکومت کی نالائقی اور نا اہلی کے سوا کوئی دوسری بات نظر نہیں آتی لیکن در حقیقت اس نوٹیفکیشن کے اجرا میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے کہ حکومت نے تو 27ویں ترمیم میں چیف آف ڈیفنس فورسز کے حوالے سے آئین میں ترمیم کر دی لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک نیا آفس قائم ہونا تھا اور یہ کوئی معمولی آفس نہیں ہو گا بلکہ پاکستان کے معروضی حالات میں یہ ایک انتہائی طاقت ور منصب پر فائز شخصیت کا دفتر ہو گا تو اس حوالے سے خود فوج کے اندر کام ہو رہا تھا کہ اس پورے سیٹ اپ کو جو کہ پاکستان کا طاقت ور ترین سیٹ اپ ہو گا اسے کس طرح ترتیب دینا ہے اور اس حوالے سے پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اس میں حکومت اور فوج کے درمیان یا افوج پاکستان کے اپنے اندر نہ تو کوئی ابہام تھا اور نہ ہی کسی بھی قسم کا کوئی اختلاف یا کوئی مسئلہ تھا۔ جو لوگ پاکستان کے سیاسی حقائق کو جانتے ہیں انہیں اس بات کا ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ عسکری اور سیاسی قیادت میں رتی بھر بھی کوئی اختلاف ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ ایک نیا عہدہ ہے اس کے لیے بہت سی تفصیلات طے کرنا تھیں اس لیے اس میں تاخیر ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھی یہ نوٹیفکیشن چند دن کی تاخیر سے ہو گیا اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں آئی لیکن اس حوالے سے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا جس طرح ایکسپوز ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوٹیفکیشن نہ ہونے کو لے کر جس طرح بے سروپا باتیں کی گئیں کہ جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور جس طرح مسلسل جھوٹ بولا گیا وہ اتنا ٹھس ہے کہ لگ ایسے رہا ہے جیسے اب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا کی جانب سے جو کچھ کہا گیا اور اب بھی کہا جا رہا ہے اسے ماسوائے ذہنی دیوالیہ پن کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ دیکھیں کہ کیسی بے سروپا باتیں کہ جن کا کوئی سر ہے نہ پیر وہ کہی گئیں لیکن حیرت ان پر ہے کہ جو بار بار جھوٹ کی ایسی بکواسیات پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک جنرل صاحب کا نام بھی دے دیا گیا۔ ان کے نوٹیفکیشن کو جاری بھی کرا دیا گیا لیکن ڈھٹائی کی انتہا دیکھیں کہ نہ تو نئے آرمی چیف کا نوٹیفکیشن ہوا اور نہ دکھایا گیا لیکن ہٹ دھرمی قائم رہی۔ اب اگر کسی نئے آرمی چیف کا نوٹیفکیشن ہوا ہے تو وہ کہاں تھا۔ پھر فیلڈ مارشل صاحب کو گرفتار بھی کرا دیا گیا اور بار بار کہا گیا کہ شریف خاندان کے ساتھ فیلڈ مارشل صاحب نے جو انتقامی کارروائی کی اب میاں نواز شریف صاحب اس کا بدلہ لے رہے ہیں کہ انہیںچوتھی بار وزیر اعظم نہیں بنایا لیکن اب وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی یقین دہانی کے بعد نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ ایسی باتوں سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اب ان کے پاس جھوٹ کا چورن بیچنے کے لیے کچھ بچا نہیں ہے اور یہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ جو کچھ کہا گیا اور کہا جا رہا ہے اس میں کچھ بھی سچ نہیں تھا لیکن اس میں فیلڈ مارشل صاحب کے متعلق جو ہرزہ سرائی کی گئی ہم وہ بکواس یہاں دہرانا نہیں چاہتے لیکن بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا کے چمپئن جو کچھ کہہ رہے تھے اور ان کے تسلسل میں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا جو کہہ رہا تھا اس کے بعد پھر فریق مخالف کی جانب سے آپ کیا توقع رکھیں گے اور جب وہاں سے کچھ ری ایکٹ ہوتا ہے تو پھر چیخیں آسمان تک جاتی ہیں۔
بات لیکن ری ایکٹ کی نہیں ہے اور اب تو بات نوٹیفکیشن سے بہت آگے جائے گی اور جو نرمی اور رعایت برتی جا رہی تھی وہ ان کے اپنے انتہا پسند اور جھوٹ اور ڈھٹائی کی انتہا پر پہنچ کر جو کچھ کیا جا رہا ہے کہ جو ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے اس کے نتائج بھی ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جانب سے انتہائی شدید نفرت اور توہین آمیز رویہ ہو لیکن دوسری جانب سے مکمل خاموشی رہے اور پھر اگر اس رویہ میں کچھ سچ ہوتا تو پھر بھی کہا جا سکتا تھا کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اگر کسی کو بُرا لگ رہا ہے تو لگنے دیں لیکن ہے تو سچ لیکن جب سچ نہیں بلکہ مکمل جھوٹ کی بنیاد پر آپ کسی کے خلاف اس کی کردار کشی کریں اور وجہ بھی کوئی نہ ہو تو پھر اس کے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اندازہ کریں کہ پاک بھارت جنگ کے دوران ان کا بیانیہ مکمل طور پر ہندوستان کے ساتھ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی بات ہو ان کی تمام تر ہمدردیاں ملک و قوم اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہداءکی بجائے دہشت گردوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور اب ایک نوٹیفکیشن کے اجرا میں چند دن کی تاخیر سے جن ملک دشمن رویوں کا اظہار کیا جا رہا تھا اس کے بعد سوال ہے کہ ریاست ایسے عناصرکے خلاف کب تک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہے گی؟
No comments yet.