ترمیم اعتراض اور اب تحریک
ترمیم اعتراض اور اب تحریک
سیاسی جماعتوں میں ایک خوبی تو ہے کہ دکان بے شک پکوڑوں کی ہو لیکن باتیں ان کی ہمیشہ کروڑوں کی ہوتی ہیں۔ 27ویں ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری سے پہلے اور بعد میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی آنیاں جانیاں ، پریس کانفرنسیں اور بیانات ایسے تھے کہ بس ادھر تحریک چلنی ہے اور ادھر حکومت کا دھڑن تختہ ہو جانا ہے لیکن بات وہی کہ باتیں کروڑوں کی لیکن دکان پکوڑوں کی ۔ پہلے کہا کہ گذشتہ جمعہ کو تحریک شروع ہو گی لیکن وہ جمعہ بخیر و عافیت یعنی مکمل سکون ڈاٹ کام کے ساتھ گذر گیا اور اب 21نومبر بروز جمعہ والے دن احتجاج ہو گا یعنی وہ جو ملک دشمن عوام دشمن اور آئین کو سبو تاژ کرنے والی 27ویں ترمیم ہے اب اس پر تحریک کی بجائے حال کی گھڑی تک جو تحریک ہے وہ ہر جمعہ کو احتجاج تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن قطعی ضروری نہیں ہے کہ ہر جمعہ کو احتجاج ہو بلکہ قوی امید ہے کہ اس جمعہ کا احتجاج ہی آخری احتجاج ثابت ہو گا اور اس کے بعد ایک بار پھر کاروبار زندگی معمول کے مطابق چلنا شروع ہو جائے گا ۔جہاں تک عوام کی بات ہے تو ہر جماعت کے پاس 24کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہے کہ جن سیاسی جماعتوںکے پاس تانگے کی سواریاں نہیں وہ بھی دعویٰ چوبیس کروڑ عوام کی حمایت کا کرتے ہیں ۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اگر کروڑوں عوام ان کے ساتھ ہیں تو تحریک اور احتجاج کی ہر کال ناکام کیوں ہوتی ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن آج کچھ بنیادی وجوہات پر بات ہو گی لیکن اس سے پہلے فقط چند الفاظ ترمیم پر سب سے بڑے اعتراض یعنی عدلیہ کے لئے جو ترامیم ہوئی ہیں تو اس کے لئے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ جس عدلیہ کے لئے آج مخالفت برائے مخالفت میں مگر مچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں اسی عدلیہ کی یہ ہی نہیں بلکہ ہر کوئی مخالفت کرتا آ رہا ہے اور اس عدلیہ نے مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر منتخب وزارائے اعظم کو نا اہل قرار دے کر جس طرح گھر بھیجا ہے آج تک کسی بھی جمہوریت پسند نے اس کی تحسین نہیں کی ۔ اگر ضرورت پڑی تو عدلیہ پر مکمل تفصیل کے ساتھ ایک کالم قارئین کی نذر کریں گے لیکن فی الحال احتجاج کی ہر کال کی ناکامی کی بنیادی وجوہات پر بات کر لیتے ہیں۔
احتجاج کی ہر کال کی بنیادی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خان صاحب کا طرز سیاست ہے۔ جس طرف ہم توجہ دلانا چاہ رہے ہیں اگر اس پر تھوڑا سا غور کر لیں تو نہ صرف یہ کہ خان صاحب کا طرز سیاست سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ احتجاج کی ناکامی بھی سمجھ میں آ جائے گی ۔ خان صاحب سب سے پہلے مشرف دور میں ہونے والے الیکشن میں 2002میں رکن قومی اسمبلی بنے تھے لیکن اندازہ کریں کہ وہ اپنی جماعت کے اکلوتے ہی رکن اسمبلی تھے لیکن اس کے باوجود بھی انھیں امید تھی کہ جنرل مشرف انھیں وزیر اعظم بنا دیں گے حالانکہ انھیں اگر سیاست کی کچھ سمجھ ہوتی تو اتنا اندازہ تو ہوتا کہ اس وقت سرکاری جماعت مسلم لیگ ق تھی اور اس میں اکثریت ان سیاست دانوں کی تھی جو کئی نسلوں سے سیاست میں متحرک تھے اور اگر مسلم لیگ ق کی پوری قیادت مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کر مشرف کی بی ٹیم بنی تھی تو آخر انھیں کچھ تو گارنٹیاں ملی ہوں گی لیکن ان سب زمینی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے خان صاحب نے ایک سیٹ کے بل بوتے پر اور وہ بھی ایک سیٹ کہ جو خود نہیں جیتی تھی بلکہ سقہ راوی یہی کہتے ہیں کہ دلائی گئی تھی اس کے بل پر وزیر اعظم بننا چاہتے تھے یعنی سیاست کے آغاز میں ہی انھوں نے بیساکھیوں کے سہارے آگے بڑھنے کی سیاست کا آغاز کر دیا تھا جو کہ اب تک بھی جاری ہے ۔ یہ بات ہم کوئی ہوا میں نہیں کر رہے بلکہ دلیل کے ساتھ بات کریں گے کہ خان صاحب اگر وزیر اعظم کے منصب پر ہوتے ہوئے بھی بجٹ پاس کرانے کے لئے ایجنسیوں کے محتاج تھے اور یہ بات بھی ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ انھوں نے خود یہ بات کہی تھی تو احتجاج اور وہ بھی ایسا احتجاج کہ جس سے حکومتیں ختم ہو جائیں وہ اس طرح کا احتجاج کیسے منظم کر سکتے ہیں ۔
2014میں ریکارڈ126دن کے دھرنے کس وجہ سے ہوئے کہ وڈے گھر والوں کی آشیر باد حاصل تھی اور حکومت وقت کو حکم تھا کہ دھرنے والوں پر سختی نہیں کرنی لیکن اندازہ کریں کہ جن35پنکچروں پر عمارت کھڑی کی تھی جب بعد میں ان کے متعلق عمران خان سے سوال کیا گیا تو بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ وہ تو سیاسی بیان تھا یعنی آپ نے جس بنیاد پر 126دن تک دھرنے دیئے اور اگر قسمت ساتھ دیتی تو ایک حکومت کا دھڑن تختہ ہو جانا تھا لیکن ان کے نزدیک وہ سیاسی بیان تھا ۔ کچھ اسی طرح کا رویہ سائفر کے حوالے سے بھی تھا کہ بھرے مجمع میں ایک کاغذ کو لہرا کر کہا کہ یہ سائفر ہے اور پھر اسی سائفر پر پوری عمارت کھڑی کر کے ایک امریکہ مخالف بیانیہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے لیکن پھر اس بیانیہ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں کیسے پھوٹی کہ جس ڈپٹی سپیکر نے پوری حزب اختلاف کو غدار قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد قرار دیتے ہیں اب وہ خود امریکہ میں بیٹھ کر امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور پوری پارٹی اور ان کے بیٹے امریکن صدر سے ان کی رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں تو جب قول و فعل میں اس طرح کا تضاد ہو گا تو احتجاج کے لئے عوام کیوں نکلیں گے
No comments yet.