پیر ،15 دسمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

ترمیم پر اعتراضات

ترمیم پر اعتراضات

Editor

ایک ماہ قبل

Voting Line

 

27ویں ترمیم کا پہلا نقد نتیجہ سپریم کورٹ کے دو محترم جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے مستعفی ہونے کی صورت میں نکلا ہے ۔ اس پر تفصیل سے بات کسی اور کالم میں ہو گی کیونکہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی اس ترمیم پربڑا شور ہے لیکن بنیادی طور پر تین اعراضات ہیںجن میں اول فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں تحفظ دینا ۔ دوسرا صدر مملکت کو تا حیات استثنیٰ اور تیسرا سب سے بڑا اعتراض آئینی عدالت کا قیام ہے ۔ سب سے پہلے فیلڈ مارشل کے عہدے کو تحفظ دینے اور اسے تا حیات کرنے پر بات کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک بات واضح کر دیں کہ تا حیات استثنیٰ صرف فیلڈ مارشل کو نہیں اور نہ ہی یہ صرف عاصم منیر صاحب کے لئے ہے بلکہ جب تک یہ ترمیم آئین کا حصہ رہے گی اس وقت تک مستقبل میں جو بھی فیلڈ مارشل بنے گا تا حیات کا قانون اس پر بھی لاگو ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ قانون مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کو بھی آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ دیا گیا ہے ۔ہماری رائے میں یہ بالکل درست ترمیم ہوئی ہے اور اس کی بڑی ٹھوس وجہ ہے ۔ اپریل2025میں ہندوستان میں پہلگام واقعہ ہوتا ہے اور ہندوستان اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے ۔ فیلڈ مارشل صاحب کہ جن کی قیادت میں افواج پاکستان نے ہندوستان کے خلاف انتہائی قلیل وقت میں بے مثال کامیابی حاصل کر کے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا لیکن وہ کون لوگ تھے کہ جنھوں نے ہندوستان سے دوران جنگ ملک دشمنی کی انتہا کرتے ہوئے ہندوستان کے بیانیہ کے ساتھ مل کر نہ صرف یہ کہ ملک کے خلاف پروپیگنڈا کیا بلکہ فیلڈ مارشل صاحب کی ذات کو خاص طور پر نشانہ بنایا تو مستقبل میں ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ ترمیم انتہائی ضروری تھی ۔                                                               

جہاں تک صدر مملکت کو تا حیات استثنیٰ دینے کی بات ہے تو اصولی طور پر یہ غلط ہے اس لئے کہ صدر اور چاروں صوبوں کے گورنرز کوآئین کے آرٹیکل248کے تحت پہلے ہی استثنیٰ حاصل تھا لیکن یہ استثنیٰ صرف عہدے کی مدت کے دوران تھا ۔ اس حوالے سے ایک بات بہت زیادہ اہم ہے کہ اصولی طور پر یہ بات غلط ہے لیکن جہاں تک آصف علی زرداری کی بات ہے تو ان کی ذات کی حد تک انھیں تا حیات استثنیٰ دے دینا چاہئے ۔ اب اگر اصولی طور یہ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب کے لئے یہ غلط آخر درست کیسے ہو گیا تو ان کی عمر اور پھر صحت کے مسائل لیکن انھیں بھی ایک طرف رہنے دیں ۔ فرض کریں کہ زرداری صاحب منصب صدارت کے بعد کوئی ایسا جرم کرتے ہیں کہ جس کی سزا عمر قید ہے تو زرداری صاحب تو14سال بے گناہی کی سزا پہلے ہی بھگت چکے ہیں ۔ ان کی پوری جوانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذری اور 2004 میں جب عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کیا تو وہ دور جنرل مشرف کا تھا اور اس کے بعد جب تحریک انصاف کے دور میںگرفتار ہوئے تو عدلیہ کی اکثریت اس وقت ہم خیال ججز کی تھی اور اسی دور میں انھیں پھر رہائی ملی تو اول تو اس عمر میں وہ کیا جرم کریں گے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین کے عہدے کے بعد ان کا استثنی ویسے بھی ختم ہو جائے گا لہٰذا کم از کم پاکستان کے سیاسی ماحول میں عمر کے اس حصے میں تو ” پاکستان کھپے “ کا کچھ صلہ انھیں ضرور ملنا چاہئے ۔

آخر میں آئینی عدالت کے قیام پرجو سب سے بڑا اعتراض ہے اس کی بات کر لیتے ہیں اور ہم ذاتی طور پر بھی اس ترمیم کے بہت زیادہ حامی ہیں اس لئے کہ فرق بڑا واضح ہے ۔ شور کرنا اور بات ہے لیکن کوئی ہمارے اس سوال کا ہی جواب دے کہ بھٹو صاحب کی سزائے موت پر 2011میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا تھا لیکن جس عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا واویلا کیا جا رہا ہے تو اس نام نہاد آزاد عدلیہ نے تو 13سال تک اس ریفرنس کو کھڈے لائن لگائے رکھا اور اسے سننے کی زحمت ہی نہیں کی لیکن خدا بھلا کریں قاضی فائز عیسی صاحب کا کہ جنھوں نے اس کا فیصلہ کیا پھر جس عدلیہ کے از خود نوٹس سے عوام کے منتخب وزرائے اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا جائے کم از کم وہ عدلیہ نہیں چاہئے ۔ جس عدلیہ کے لئے مگر مچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں اس کی تاریخ تو دیکھ لیں کہ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے فیصلے سے اگر شروع کریں تو پھر بھٹو صاحب کے عدالتی قتل جیسے سیاہ فیصلے ، نصرت بھٹو کیس میں ضیاءمارشل لاءکو جائز قرار دینا اور آئین میں ہر طرح کی ترامیم کا اختیا دینا ، جنرل مشرف کے مارشل لاءکو بھی جائز قراردینے کے ساتھ انھیں بھی آئین میں من مانی ترامیم کرنے کا کلی اختیار دینا ۔ آمروں کو آئین میں ترمیم کا مکمل اختیا اور اس پر کوئی از خود نوٹس بھی نہیں لیکن ماضی میں جب بھی عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ نے اگر کوئی ترمیم کی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا اور آئین میں واضح درج کہ پارلیمنٹ کی منظور کردہ کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا لیکن پارلیمنٹ سے منظور ہر ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اورہر بار تشریح کے نام پر اپنی مرضی کا نیا آئین تحریر کیا گیا تو اب اگر آئینی معاملات کو دیکھنے کے لئے ایک نئی وفاقی عدالت بن رہی ہے تو دعا ہے کہ یہ ضمیر کی نام نہاد آواز کی بجائے آئین کے مطابق فیصلے کرے گی۔

Comments

No comments yet.

سب سے زیادہ پڑھا
Effy Jewelry
Effy Jewelry