جان لیوا مہنگائی جا
جان لیوا مہنگائی ا
حکومتی دعووں اور کاوشوں کے باوجود بھی مہنگائی کا جن بوتل میں بندنہیں ہو رہا اور عوام بدستور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی سے سفیدپوش طبقے تک کو پریشان کر رکھا ہے ۔ روز مرہ کی ضروریات زندگی کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ عام آدمی کے لئے جینا مشکل ہو چکا ہے ۔ حکومتی کوششوں کے باوجود بھی چینی کی قیمتوں میں کمی نہیں لائی جا سکی اور لاہور میں چینی کی فی کلو قیمت دو سو روپے سے اوپر جا چکی ہے جبکہ چکی کا آٹا140اورپیاز 200روپے کلو تک بک رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی گیس اور پیٹرول کے نرخ تو پہلے ہی کافی زیادہ ہو چکے ہیں ۔ بظاہر اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہرایا جائے گا لیکن صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے کہ ہر بات کا ملبہ اٹھا کر حکومت پر ڈال دیا جائے اور باقی جتنے فریق ہیں انھیں بری الذمہ قرار دے کر کلین چٹ دے دی جائے ۔88کے الیکشن کے بعد اکتوبر1999تک چار حکومتیں آئیں دو بار پاکستان پیپلز پارٹی اور دو بار نواز لیگ ۔ چاروں بار کسی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔ کوئی بیس ماہ تو کوئی تیس ماہ اور پھر12اکتوبر1999کو میرے عزیز ہم وطنوں کے بعد جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی ۔ چاروں حکومتیں جتنا عرصہ بھی رہیں لیکن اس دور میں تمام تر بے اصولیوں کے باوجود بھی کچھ اصول ابھی باقی تھے لہٰذا حزب اختلاف حکومتی پالیسیوں پر ڈٹ کر تنقید کرتی تھی لیکن پارلیمنٹ میں یا پھر 14اگست یا23مارچ جیسے کسی قومی تہوار پر کسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کچھ گرم سردکہہ دیا جاتا تھا لیکن اصل جنگ پارلیمنٹ میں ہی ہوتی تھی اور پھر جب اگلے الیکشن کے دن قریب آتے تو جلسے جلوس اور ریلیوں سب کچھ ہوتا لیکن یہ سب کچھ عام حالات میں نہیں ہوتا تھا ہاں البتہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی بہت بڑا بلنڈر ہو جاتا یا خدا نخواستہ کوئی سانحہ ہو جاتا تو اس پر بھی چند دن زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگ جاتے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے یہی طرز سیاست چل رہا تھا لیکن تحریک انصاف کے سیاست میں آنے کے بعد میدان سیاست میں بہت سے نئے اصول و ضوابط متعارف کرائے گئے جن میں سے ایک تو سوشل میڈیا پر مسلسل ایسے بیانیہ بنائے رکھنا کہ جس سے ملک میں غیر یقینی کی فضا ہر صورت برقرار رکھنا اوردوسرا عملی طور پر ہر لمحہ احتجاجی سیاست کر کے غیر یقینی کی کیفیت کو مزید تقویت دینا اس طرز سیاست کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے ۔ اس طرز سیاست کا جو نقد نتیجہ معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے جس سے ایک تو حکومت کی ناکامی کا تاثر عام ہوتا ہے اور دوسرا معاشی تباہی کی صورت میں جو مہنگائی ہوتی ہے اس سے عوام میں بے چینی اور حکومت بیزاری کے جذبات پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے ۔
ہر لمحہ اور ہر صورت احتجاجی سیاست اور غیر یقینی کی صورت حال معاشی پہیہ کو جام کر کے رکھ دیتی ہیں اور جب معیشت کا پہیہ ہی جام ہو جائے تو پھر مہنگائی کے گراف کو بلند سے بلند تر ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن موجود حکومت کے ساتھ تو اس سے بھی زیادہ ستم یہ ہوا ہے کہ اپریل2022جب موجودہ رجیم بر سر اقتدار آئی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے نزدیک تھا ۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض اور اس کے لئے پھر جن لوازمات کی ضرورت پڑتی ہے اس کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہونا ایک معمول کی بات ہے ۔ حکومت نے ملکی معیشت کو اس بحرانی دور سے نکالا کہ جس میںدیوالیہ ہونے کے شدید خطرات موجود تھے لیکن مہنگائی کو کم کرنے میں کوئی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو پائی ۔
یہ حالات کسی آئیڈیل صورت حال کا منظر پیش نہیںکر رہے لیکن امید کی کرنیں بہرحال موجود ہیں اس لئے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے جتنے معاہدے ہوئے ہیں تو عنقریب جب بیرونی سرمایہ کاری آنا شروع ہو گی تو معیشت بھی بہتر ہو گی اور عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے جن مشکلات کا شکار ہے اس میں بھی کمی آئے گی ۔ اس کے علاوہ امریکن جریدے فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میںموجود معدنیات کا معیار بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے اور یہ بات انتہائی خوش آئندہے اس لئے کہ امریکہ اور چین سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کو جدید اسلحہ جس میں جنگی جہاز اور میزائل خاص طور پر شامل ہیں ان کے لئے جن پچاس معدنیات کی ضرورت ہے وہ پاکستان میں بکثرت پائی جاتی ہیں اور ان کا حجم 2لاکھ30ہزار مربع میل ہے جو برطانیہ کے کل رقبہ سے دو گنا ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خوشحالی کے دن زیادہ دور نہیں اور اب خدا نے چاہا تو پاکستانی عوام کی خوشحالی کی بات نعروں سے ہٹ کر حقیقت میں بدلنے والی ہے ۔ ہم بار بار اپنی تحریروں میں اس بات کا ذکر کر رہے ہیں کہ اس ساری صورت حال کا ادراک ملک دشمن قوتوں کو بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشرقی اور مغربی سرحدوں سمیت ملک کے اندر بھی حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن مغربی سرحدوں پر تو فتنہ الخوارج کو افواج پاکستان نے کافی تسلی بخش جواب دیا ہے اور مشرقی سرحد پر موجود دشمن کو مئی کی عبرت ناک شکست کے بعد دوبارہ کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی ۔ اب لے دے کر ملک کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن قوی امید ہے کہ یہاں بھی دشمن کو منہ کی کھانا پڑے گی اور پاکستانی معیشت کی بہتری کے بعد عوام کو بھی ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔
No comments yet.