ہفتہ ،13 دسمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

دوپہر کا چاند

مطالعہ نعیم فاطمہ علوی

Editor

ایک ماہ قبل

Voting Line
دوپہر کا چاند
 
 
 
 
مطالعہ نعیم فاطمہ علوی
شاعر ڈاکٹر نذیر قیصر
کچھ دن پہلے ایک نامانوس نمبر سے میرے فون پر گھنٹی بجی۔۔ مخاطب نے نام بتایا ۔۔
میرا نام نذیر قیصر ہے میں آپ کا خاموش قاری ہوں آپ کی تحریریں بڑے ذوق اور شوق سے پڑھتا ہوں ۔ مجھے آپ جیسی سوچ کی خواتین بہت پسند ہیں جو زندگی کے مثبت رویئے سے بھر پور ہوتی ہیں۔۔ ۔
وقفے میں میں نے کہا۔۔
میں آپ کو جانتی ہوں یہ کوئ اچھمبے کی بات نہیں ۔۔۔۔
آپ مجھے جانتے ہیں یہ اچھمبے کی بات ہے۔۔
آپ کا فون اور گفتگو سن
کرمجھے پنجابی میں کہنے دیجیئے کہ "چاء چڑھ گیا۔۔
اولیں صبح تھی ستاروں کی
میرا تجھ سے مکالمہ ہوا تھا
دیکھیئے ! قیصر صاحب ؛ اگر آپ کے لیئے فخر کی بات ہے کہ میں آپ کی شاعری سے استفادہ کروں تو مجھے بھی تو فخر ہے کہ آپ میری تحریریں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں ۔۔
چلیئے ! آج ہم اس فخر کو آدھا آدھا بانٹ لیتے ہیں۔
آپ نے مجھے دوپہر کا چاند کا دیباچہ پڑھنے کو کہا۔۔۔
ارے یہ کیا حکم تھا ۔کیسی خواہش تھی کہ مجھے دیباچہ پڑھ کر خوش گمانی سی ہونے لگی۔بقول مومن
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ایک دفعہ تشفی نہیں ہوئ بار بار پڑھا۔۔ ازبر ہوا ذہن نشیں کیا اور ہر دفعہ سرشار ہوکر اپنے اندر بجتی شہنائیوں سے مسرور ہوتی رہی ۔۔
بجا ! نذیر قیصر صاحب کہ " حرف سے کونپلیں نکل آئیں"
کیا خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے الفاظ ہیں۔۔دل ہی تو خوش ہوگیا۔ زندگی کو گزارنا بھی تو ایک فن ہے۔ آپ کے یہ الفاظ جیتے جاگتے میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھے جھنجوڑنے لگے۔ بہت سے سوالات کا جواب مل گیا ۔ بہت سے سوالات ارد گرد منڈلانے لگے۔۔ مگر سب الجھنیں دھیرے دھیرے سلجھنے لگیں۔اور ان سے پھوٹتے مثبت رویے نے سرشار کر دیا۔
آپ بھی سنیئے!
"لمس، سماعت، بصارت، سونگھنے اور بولنے کی صلاحیت اگر آپ سے چھین لی جائے تو آپ بس ڈر رہ جاتے ہیں—پتھر کا ایک بےجان وجود، ایک بھوت۔
جو علم آپ کو آزاد نہیں کرتا، وہ علم نہیں؛ وہ گلے کا طوق ہے، پاؤں کی زنجیر ہے۔ڈر کے تابوت کو کسی کونے میں پھینک دیجیے اور آزاد ہو جائیے۔اپنی زندگی کے دعوت نامے پر اپنی مرضی کی تاریخ، دن اور وقت درج کیجیے، دستخط کیجیے اور جشن میں شامل ہو جائیے۔
اپنا جشن خود منائیے، کیوں کہ آزادی، محبت اور سچائی—ان تینوں کے دروازے آپ کے اپنے دستخط سے کھلتے ہیں"
تتلی بنیں ستارہ بنیں اور خوش رہیں
بچوں کے ساتھ کھیلیں ہنسیں اور خوش رہیں
یہ عارضی سرائے بھی جنت سے کم نہیں
کچھ دن یہاں قیام کریں اور خوش رہیں۔
شہروں سے دور کھیتوں درختوں میں گھوم کر
کوئ خوشی تلاش کریں اور خوش رہیں۔
فی زمانہ خوشیاں ہی تو کہیں کھو گئی ہیں۔۔ انہیں تلاش کرنا تلاش کی کھوج میں سفر کرنا۔۔انتشار کی گتھیوں کو سلجھانا ، یکسوئ حاصل کرنا۔ اور پھر ہمت اور حوصلے سے یکسوئ کی اس منزل کو چھونا جہاں سےخوشی کشید کی جاتی ہے ناممکن نہیں بس ہمت چاہیئے آپ نے اپنے خیالات کی یکسوئ سے ہمت اور حوصلے کی وہ شمع جلائ ہے جس سے مسافر کے لیئے راستہ تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔۔
ذرا دیکھیئے تو سہی ۔۔۔
"آدمی دید ہے، باقی پوست ہے۔ دید کے بغیر آدمی صرف مٹیریل ہے، اندھیرے میں گندھی ہوئ مٹی ۔۔آپ کو آنکھیں چاہییں، اور آنکھیں بھی بچے کی — جن پر کائنات اپنے طلسمی دروازے کھولتی ہے۔
حیرتوں سے چھلکتی ہوئی نئی آنکھیں، جن کے روبرو سب کچھ نیا ہو جاتا ہے، زندہ ہو جاتا ہے۔
بچہ حرف کو چھو کر زندہ کر دیتا ہے،
ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔"
میں نے بچوں کی آنکھوں سے دنیا دیکھی ہے
قیصر میرے جیسے شاعر بچے ہوتے ہیں
زندگی کو خوبصورتی اور مثبت انداز سے جینے کا مظاہر دیکھیئے۔۔مجھے لگا یہ میرے ہی دل کی آواز ہے۔۔
اچھے خوابوں خیالوں میں زندہ رہیں
اچھی اچھی کتابیں پڑھا کیجیئے
نذیر قیصر صاحب میں نے ببی اس شاعری کے دعوت نامے پر دستخط کر دیئے ہیں۔۔
"شاعری ایک دعوت نامہ ہے — ایسا دعوت نامہ جس پر نہ کوئی تاریخ لکھی ہوتی ہے، نہ دن، نہ وقت۔
اس دعوت نامے پر تاریخ، دن اور وقت ہمیں خود درج کرنا ہوتے ہیں۔
اور جب ہم یہ تاریخ اور وقت لکھتے ہیں تو پہلا دن طلوع ہوتا ہے، پہلی شام اُترتی ہے،
اور ہم زندگی اور شاعری کی دعوت میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہ جشن ہمارا اپنا ہے —
جس کی تاریخ، دن اور وقت ہم نے خود منتخب کیے ہیں۔
تو آئیے، جشن منانا شروع کیجیے،
رَقص کیجیے، اپنی پسند کا گیت گائیے،
اپنی پسند کے مشروب سے خود کو تازہ دم کیجیے،
اور گلدان میں اپنے پسندیدہ پھول سجا لیجیے۔
یہ جشن آپ کا اپنا ہے،
اس کی تاریخ، دن اور وقت آپ نے خود تحریر کیے ہیں۔
اب اس پر اپنے نام کے دستخط کیجیے —
یہ آپ ہیں، آپ خود ہیں۔
سچائی اور آزادی کے ساتھ ایک گہرا سانس لیجیے
اور جینا شروع کیجیے، لکھنا شروع کیجیے۔
جو شاعر زندگی کے دعوت نامے پر
اپنا دن، تاریخ اور وقت درج نہیں کرتا،
وہ اس دعوت میں شامل نہیں ہو سکتا۔
وہ اس جشن سے باہر رہ جاتا ہے۔
زندگی اور شاعری کے جشن کا دروازہ اس پر نہیں کھلتا۔
وہ اپنی بجھی ہوئی مشعل لیے
اس دروازے سے باہر اونگھتا رہتا ہے
زندگی اور شاعری ایک بارگاہِ جشن ہے،
جسے ہم نے ماتم کدہ بنا رکھا ہے۔
شہر اجڑا ہوا ہے، گلیاں بے چراغ ہیں،
باغوں میں خزاں کا موسم ہے،
محبوبہ بچھڑی ہوئی ہے،
قریب ہے تو بے وفا ہے،
ستمگر اور حیلہ جو ہے، رقیب کے ساتھ جانے والا ہے۔
دوست ہے تو آستین کا سانپ ہے،
آسمان بے رحم ہے،
زمین سنگدل ہے،
دنیا عارضی سرائے ہے،
گناہ کا گھر ہے،
زندگی جبرِ مسلسل کی صورت ہے۔
تمام اوراق پر نفی کی سیاہی بکھری پڑی ہے،
لیکن کوئی اس بات کی عبادت کا لشکارہ نہیں مارتی،
کسی لفظ کی کونپل کھل کر پھول نہیں بنتی۔
اس مایوس غم کدے میں داخل ہونے کے بارہ دروازے ہیں،
مگر باہر نکلنے کا ایک بھی نہیں۔"
محبت، پھولوں ، کلیوں ، بارشوں، تتلیوں ، خوشبو ؤں ، نئے امکانات اور آنے والے کل کے شاعر نذیر قیصر کے کچھ اور اشعار سنیئے اور سر دھنیئے۔۔۔
یہی نشانیاں ہوتی ہیں اس کے آنے کی
ہوا میں نور درختوں میں بور آیا ہوا
وہ اپنی کوئ نئی شکل کیا تراشیں گے
جنہیں خدا بھی ملا ہے بنا بنایا ہوا
تھنڈی، میٹھی ہوائیں آنے لگیں
پہلی بارش کا خط وصول ہوا
ایک ہی شاخ پر کھلے دونوں —
وہ ستارہ ہوئی، میں پھول ہوا
شاخِ گندم میں پھول آنے لگے
میں زمین کے خمار سے نکلا
دن کے پیچھے دن بہتا ہےرات کے پیچھے رات —
بہتے دن کو دیکھ رہی ہیں آنکھیں میچے رات،
پاؤں کے نیچے آ جاتے ہیں کیسے کیسے خواب —
زندگی راستہ نہیں دیتی
راستہ خود بنانا پڑتا ہے
دل سے دنیا نکال دی میں نے
آگ کاسے میں ڈال دی میں نے
پیاس چھلکی تھی میری چھاگل سے
آسماں تک اچھال دی میں نے
شاعری کی پرانی محبوبہ
شاعری سے نکال دی میں نے
ایک مچھلی جو ہاتھ آئی تھی
پھر سے دریا میں ڈال دی میں نے
لوگ دکھ میں بھی مسکراتے ہیں
اس کو اپنی مثال دی میں نے
مہکتے باغوں میں بارش کے بعددن نکلا،
درخت بھیگے ہوئے،دھوپ مسکراتی ہوئی۔
رکی ہوئی کوئی کشتی،کنول کے پھولوں میں
کنول چھلکتے ہوئے۔جھیل جھلملاتی ہوئی،
پھوار پڑنے لگی۔بانس کے درختوں پر
ہوا بھی چلنے لگی،بانسری بجاتی ہوئی
لہروں میں جال ہے کہ سمندر ہے جال میں
اک تشنگی سی بہتی ہے موجِ سوال میں
میں چھو کے دیکھتا ہوں اُسے جاگتے ہوئے
رہتا ہے کوئی خواب کی صورت خیال میں
دیکھا تھا میں نے نیند میں اُس کو پکار کے
اک خواب لے گیا مری آنکھیں اُتار کے
آنکھیں کہیں ہیں، چہرہ کہیں، ہاتھ ہے کہیں
ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں کسی شاہکار کے
اور آخر میں انہی کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے۔ ادبی منظر نامے اور نذیر قیصر کی دنیا کے شعری خزینے کی ایک جھلک
نئی شاعری کے مینی فیسٹو میں پرانی شاعری کی ڈکشنری اور روایتی مضامین کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ بنے بنائے، گھڑے گھڑائے لفظ اور مضامین اپنے امکانات کھو چکے ہیں۔ نئے لفظ اور نئے خوابوں کو تراشنا ہوگا ۔کائنات میں ابھی بہت امکانات ہیں۔ دنیا بوڑھی نہیں ہوتی، ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ منظر پرانے نہیں ہوتے، ہماری آنکھیں پرانی ہو جاتی ہیں۔ بس بچے بن جائیںے سب کچھ نیا ہو جائے گا، خوبصورت ہو جائے گا۔
Comments

No comments yet.

Effy Jewelry