آزمودہ سیاسی ٹوٹکے
آزمودہ سیاسی ٹوٹکے
آزمودہ سیاسی ٹوٹکے
پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب حکومت مخالف جماعتوںکو حکومت کے خلاف کچھ نہیں ملتا یا ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو اس بیروز گاری کے دور میں بھی صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ میڈیا والوں کے پاس بھی کچھ ایسے آزمودہ سیاسی ٹوٹکے ہیں کہ جنھیں آزمانے پر کچھ عرصہ کے لئے ان کی سیاسی دکان چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی صرف سیاسی نفرت کی بنیاد پر بیوقوف بن جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اسی مسئلہ پر تو پہلے بھی انھیں کئی بار ’’ ماموں ‘‘ بنایا جا چکا ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی فقط نفرت کی بنیاد پر ہنسی خوشی بیوقوف بن جاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں سیاسی تقسیم اس حد تک گہری ہو چکی ہے کہ ہمیں ہر قیمت پر اپنے محالف کو نیچا دکھانا ہے چاہے اس کے لئے فائول پلے ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے اور اس کے لئے ہمیں منفی سیاست کے گھٹیا ہتھکنڈوں سے ہی کام کیوں نہ لینا پڑے ۔ چند دن پہلے ایک مذہبی جماعت نے غزہ مارچ کے نام سے لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کوشش کی ۔ اس لانگ مارچ کو مرید کے میں منتشر کر دیا گیا ۔ یہی مذہبی جماعت تھی اور لاہور سے اسلام آباد کی جانب ہی لانگ مارچ کر رہی تھی اور جو کچھ اس کے ساتھ اس وقت کیا گیا اسے کوئی عشرے نہیں بیت گئے کہ لوگ بھول گئے ہوں اور پھر میڈیا کے اس متحرک دور میں اور یو ٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ہوتے ہوئے تو بندہ سو سال پرانے واقعات نہیں بھول سکتا لیکن اس وقت لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ جس جماعت نے جو کچھ کیا وہی جماعت مرید کے میں روکنے پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی تھی ۔ اس لانگ مارچ کے لئے جو عذر تراشا گیا اس طرح کے کچھ اور آزمودہ سیاسی ٹوٹکے ہیں کہ جب کسی کو انتشار پیدا کرنا ہو تو وہ موقع کی مناسبت سے کسی ایک ٹوٹکے کا استعمال کر لیتی ہے اور بعض اوقات تو کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی لیکن وجہ بنا لی جاتی ہے تو آج انہی سیاسی ٹوٹکوں کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کریں گے ۔
سب سے پرانے ٹوٹکوں میں مسئلہ کشمیر ہے کہ جب بھی کسی سیاسی و مذہبی جماعت کا دل کرتا ہے کہ ملک میں کچھ سیاسی ہلچل ہو تو وہ حکمرانوں پر با آسانی کشمیر بیچنے کا الزام لگا دیتی ہے ۔ اول تو اس کے لئے بھی کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر دو چار جملے کم بولے ہیں تو یہ بات اس بد نصیب وزیر اعظم کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی لیکن اگر کسی وزیر اعظم نے ہندوستان کادورہ کیا ہے یا ہندوستان کے کسی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا ہے یا پھر دنیا میںکسی کانفرنس کے موقع پر سائڈ لائن سفارتکاری کے تحت دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی میٹنگ ہو جاتی ہے یا راہ چلتے ملاقات ہو جاتے ہیں تو ان تمام مواقع پر بیشک کشمیر کے متعلق ایک مثبت مشترکہ اعلامیہ جاری ہو لیکن اس الزام کے ساتھ کہ اندر کھاتے کشمیر کا سودہ ہو گیا ہے ایک بڑی یا چھوٹی تحریک شروع کی جا سکتی ہے اور کچھ بھی نہ ہو تو کم از کم حکومت مخالف ایک بیانیہ تو بڑی آسانی کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے ۔دوسرا ٹوٹکا بھی کافی پرانا ہے اور وہ ہے فلسطین کا مسئلہ ۔ اب یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم کبھی فلسطین کے براہ راست سٹیک ہولڈر نہیں رہے لیکن مسلمان ہونے کے ناتے ہم نے ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی ہر طرح سے دنیا میں ہر فورم پر مدد کی ہے اور مسلمان ہونے کے ناتے یہ ہمارا فرض بھی بنتا ہے لیکن غلطی سے بھی کبھی کسی کی زبان پھسل گئی اور اس سے جانے انجانے میں کوئی غلط لفظ ادا ہو گیا تو بس پھر آپ تحریک یا احتجاج کو روک نہیں سکتے ۔ ابھی حال ہی میں دیکھ لیں کہ جن عرب ممالک کا براہ راست اسرائیل کے ساتھ تعلق ہے انھوں نے غزہ پر ٹرمپ کے معاہدے کو تسلیم کر لیا ۔ حماس نے اس پر دستخط کر دیئے ۔ غزہ میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کرجشن منا رہے تھے لیکن یہاں غزہ مارچ کے نام سے لانگ مارچ شروع کر دیا گیا ۔ ان دو قدیمی مسائل کے علاوہ 80کی دہائی کے آخر میں ایک اور ٹوٹکا سیاسی میدان میں بڑی کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا اور وہ تھا کہ نیو کلیئر پروگرام کو رول بیک کرنے کا سودہ کر لیا ۔ اب کسی بھی سیاسی جماعت پر اس سے زیادہ واہیات الزام ہو ہی نہیں سکتا اس لئے کہ پاکستان کی حدتک آپ میاں نواز شریف صاحب سے جو تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ان کو بھی یہ علم نہیں ہو گا کہ نیو کلیئر پروگرام کس جگہ ہے تو جس کو اصل جگہ کا ہی علم نہ ہو تو اس بیچارے نے کیا خاک رول بیک کرنا ہے اور پھر یہ کسی سیاسی قیادت کے اختیار میں بھی نہیں ہے ۔
ایک اور مسئلہ ختم نبوتﷺ کا ہے۔ یقین کریں کہ اس حوالے سے کسی میں جرأت تک نہیں کہ وہ کوئی ہلکی سی اگر مگر بھی کر سکے اس لئے کہ جو بھی ایسا کرے گا عوام اس کے چیتھڑے اڑا کے رکھ دیں گے اور اسی کے ساتھ کشمیر ، فلسطین اور پاکستان کی بقا و سلامتی کے ضامن نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے بھی کسی مائی کے لال میں جرأت نہیں کہ پالیسی بدلنا تو دور کی بات ہے اس حوالے سے سوچ بھی سکے لیکن جب تک عوام کو ماموں بنانے والے موجود ہیں عوام ماموں بنتے رہیں گے ۔
No comments yet.