کرپشن کی کہانیاں
کرپشن کی کہانیاں
لکھنے کے لئے موضوع تو بہت ہیں لیکن چند دن پہلے دوستوں کی محفل میں کرپشن کی ایک غضب کہانی سنی ۔ اب کرپشن کی تو لا تعداد اقسام ہیں لیکن جو کہانی اس محفل میں سنی اس طرز کی کرپشن کی کہانی کافی عرصہ کے بعد سنی تھی اس لئے سوچا کہ اس غضب کی کرپشن کہانی سے صرف ہم ہی لطف اندوز کیوں ہوں اس میں اپنے قارئین کو بھی شامل کر لیں اور وہ آپ نے ایک جملہ اکثر سنا ہو گا کہ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس لیکن ہم چونکہ اتنے امیر نہیں ہیں تو ہم بس یہی کہیں گے کہ مزہ نہ آئے تو کالم واپس ۔ تو دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے اور پاکستان کے سکہ رائج الوقت جو دستور ہے کہ غمی یا خوشی کی محفل ہو تو اس میں بھی مجال ہے کہ کوئی مرنے والے کی خوبیاں بیان کر کے نیکی کما رہا ہو یا اگر کوئی خوشی کی محفل ہے تو دلہا یا دلہن یا ان کے گھر والوں کے متعلق نیک خیالات کا اظہار کر کے محفل کے ماحول کو خوش گوار بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہو تو اس محفل یاراں میں بھی سیاست پر ہی بات ہو تی ہے اور عرصہ دراز سے سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی بن چکا ہے کہ جو اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ تمام سیاست دان انتہائی کرپٹ ہیں بلکہ ان کے نزدیک دنیا کی تمام مخلوقات میں سے اگر کوئی سب سے بری مخلوق ہے تو وہ پاکستان کے سیاست دان ہیں دیگر ممالک کے سیاست دان انھیں اول تو فرشوں جیسے لگتے ہیں لیکن اگر فرشتے نہیں تو ان سے قریب قریب کی ملتی جلتی مخلوق لگتے ہیں ۔ جو لوگ سیاست دانوں کو ہر جگہ بطور ولن پیش کرتے ہیں ان میں سے اکثریت اتنی رعایت ضرور کرتی ہے کہ ان کا اپنا جو پسندیدہ سیاست دان ہوتا ہے وہ انھیں نجات دہندہ اور کرپشن سے پاک کوئی دیوتا نظر آتا ہے اور وہ صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم میں اگر کوئی کرپشن ختم کر سکتا ہے تو وہ ان کا منظور نظر رہنما ہی ہے البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد اس کی بھی کرپشن کہانیاں ہر کسی کی زبان پر ہوتی ہیں اور پتا چلتا ہے کہ جو سب سے زیادہ کرپشن کے خلاف بات کرتے تھے در حقیقت وہی سب سے بڑے کرپٹ تھے اور دوسروں پر کرپشن کے الزامات کی وجہ بھی یہی تھی کہ اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنا تھا ۔
خیر بات کرپشن کی کہانی کی ہو رہی تھی تو ہمارے دوست نے بتایا کہ کافی عرصہ پہلے 90کی دہائی کی بات ہے کہ ان کا ایک دوست جو بیرون ملک رہتا تھا اور ایک بڑے کاروبار کا مالک تھا ۔ وہ پاکستان آیا اور اس وقت پاکستان میں وزیر ماحولیات آصف علی زرداری تھے ۔ جس طرز کی کرپشن کی کہانی سنانے جا رہے ہیں اس میں اکثر نشانہ آصف علی زرداری ہی بنتے تھے اور اس حوالے سے کم از کم ہماری نظر میں آصف علی زرداری پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مظلوم ترین سیاست دان ہیں کہ جنھیں سینما کے مالک ہوتے ہوئے بھی ٹکٹ بلیک میلر بنا دیا گیا اور کبھی موقع ملاتو ان کے خاندانی پس منظر کی تفصیل بھی بتائیں گے کہ ایک بڑے قبیلے کے سردار کو فٹ پاتھیا بھی کہا گیا ۔ اب وہ جو بیرون ملک بڑے کاروبار کے مالک تھے ان کے پاس ماحول کو بہتر بنانے کے لئے کچھ ایجادات تھیں یا کچھ آلات تھے جو صرف ان ہی کے پاس تھے تو وہ پاکستان تشریف لائے اوروزیر ماحولیات آصف علی زرداری صاحب سے ملتے ہیں کہ وہ پاکستان میں اس ایجاد کو متعارف کروانا چاہتے ہیں اور یہاں سرمایہ کاری کر کے کاروبار کرناچاہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری نے جب ان سے کمیشن مانگ لیا تو ان کا دل ٹوٹ گیا اور پھر بات آگے نہ بڑھ سکی اور وہ واپس چلے گئے ۔ ہمیں چونکہ غضب کی اس جیسی بیشمار اقسام کی کرپشن کہانیوں سے اکثر واسطہ رہتا ہے تو ہمارے دوست نے جب بات ختم کی تو ہم نے بڑی معصومیت سے سوال کر دیا کہ وہ کون سی ایجاد تھی اور آپ کے دوست نے اس ایجاد کو کون سے ملک میں متعارف کروایا تو پہلے توچند لمحوں کے لئے وہ حیرت سے ہمارا منہ تکتے رہے کیونکہ ایسی کہانی کے بعد عام طور پر داد تحسین ملتی ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے بر عکس ہو رہا تھا لیکن پھر فوری سنبھل کر کہنے لگے کہ یہ اہم بات نہیں ہے لیکن اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا لہٰذا ہم نے مزیدسوالات کرنے شروع کر دیئے ۔
اول تو کوئی وزیر اتنا ’’ ویلا‘‘ فارغ نہیں ہوتا کہ کوئی بھی بندہ چاہے وہ امیر ہی کیوں نہ ہو وہ پاکستان آئے اور اس سے فوری ملاقات کر لے ۔ یہ بات ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ بعد میں یہ سلسلہ وزارت سے وزارت عظمیٰ تک پہنچ گیا تھا کہ ایک سرمایہ کار بیرون ملک سے آیا اور اس نے وزیر اعظم سے ملاقات کی لیکن جب وزیر اعظم نے اس سے کمیشن مانگ لیا تو وہ پاکستان کے پورے نظام سے ہی بد دل ہو گیا ۔ دوسری بات کہ یہاں تو ایک ایس ایچ او پہلی ملاقات میں براہ راست کسی سے پیسے نہیں مانگتا تو وزیر مشیر اور پھر حد ہو کہ وزیر اعظم تک سے ایک اجنبی بندہ پہلی بار ملاقات کرتا ہے اور وہ اس سے کمیشن مانگ لیتا ہے ۔ تیسری بات کہ جس نے بھی کاروبار کرنا ہے تو وہ متعلقہ اداروں میں جو بندے ہیں ان سے ملاقات کیوں نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ کام تو انھوں نے کرنا ہے کسی وزیر مشیر یا وزیر اعظم نے تو نہیں کرنا لیکن حیرت ایسی کہانیا ںبنانے والوں پر نہیں ہوتی بلکہ اصل حیرت ان کہانیوں پر یقین کرنے والوں پر ہوتی ہے ۔
No comments yet.