ہفتہ ،13 دسمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

نذیر قیصر ۔ ۔ محبت کا شاعر

منشاقاضی حسبِ منشا

Editor

2 ماہ قبل

Voting Line

کہتے  ہیں  کہ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اس کی آنکھیں بڑی حسین ہوتی ہیں آج محبت کرنے والوں کو دیکھا جو دیوانہ وار شمع پر نچھاور ہو رہے تھے سوز و گداز سے لبریز میرِ محفل ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے کچھ لوگ شمع محفل ہو کر بھی سوز سے بیگانے ہوتے ہیں اور اس شمع کے پروانے بھی بیگانے ہو جاتے ہیں نذیر قیصر کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ کسی بھی محفل میں نذیر قیصر کو میر محفل دیکھ لیں محبت کرنے والے کم ہوتے ہی نہیں یہ حقیقت ہے گذشتہ روز  تقریب پذیرائی میں میرِ مجلس دیکھا تو ان کے چاہنے والے ان پر دیوانہ وار اپنے عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے تھے اور میں محسوس کر رہا تھا کہ دیوانے کہاں کہاں سے آئے ہیں ۔ ان چاہنے والوں میں بے بدل مصور و خطاط ھارون  الرشید کے جذبات کی شدت دیدنی تھی  گذشتہ شام آسٹریا کلچرل سینٹر، ماڈل  ٹاؤن لاھور کی پرشکوہ فضاؤں میں ایک غیر معمولی اور یادگار ادبی و فکری نشست منعقد کی گئی، جس کا عنوان محض ایک تقریبِ پذیرائی نہ تھا بلکہ ایک فکری ، ایک تہذیبی جشن اور ایک یادگار لمحہ تھا۔ یہ محفل عظیم شاعر، مفکر، ادیب اور ’پرائڈ آف پرفارمنس‘، جناب نذیر قیصر کی دو گراں قدر تصانیف "آنکھیں، چہرہ، ہاتھ" اور "ہرے کرشنا" کے خیر مقدم اور تعارف کے لیے منعقد کی گئی۔
یہ تقریب نہ صرف ایک شاعر کے اعزاز کا لمحہ تھی بلکہ گویا اردو ادب کی نئی روح اور فکری امکانات کی تجدید کا دن بھی تھی۔
آسٹریا کلچرل سینٹر کے روح رواں اور پیکرِ متحرک منتظم جناب عامر رفیق نے اپنی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت سے اس تقریب کو ایسا رنگ عطا کیا جو دیر تک یاد رہے گا۔ میں نے عامر رفیق کے انکسار میں افتخار تلاش کیا اور ان کی محبت سب پر غالب تھی میری عمر بھر کی کمائی یہی وہ شخص ہے جس کی تلاش میں تھا اور ان کو پا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا روشن چہرہ عالمی منظر نامے پر کہکشاں کی مقفعہ اور مسجعہ عبارتوں کی طرح جگمگاتا رہے گا ۔ عامر رفیق کا روشن چہرہ میری کتاب میں آ گیا ہے جو ڈاکٹر زرقا نسیم ملک کی نامور شاعرہ اور ناشر شائع کر رہی ہے ۔ بات ہو رہی ہے محبت کرنے والے شاعر نذیر قیصر کی تو چلتے ہیں اسی طرف جب 
تقریب کی روحانی کیفیت اس وقت دوچند ہو گئی جب لاہور کی نامور شخصیات اور اہلِ فکر و دانش نے دلوں کی گہرائیوں اور محبت کے ساتھ نذیر قیصر کی ادبی و فکری خدمات پر اظہارِ خیال کیا۔ رخشندہ نوید نے کہا کہ نذیر قیصر کا فن صرف الفاظ کی جولانی نہیں بلکہ زندگی کے باطن میں جھانکنے کا نام ہے۔ راقم  نے اپنے خطاب میں کہا کہ نذیرقیصر کی شاعری آنکھوں کو خواب اور دل کو یقین عطا کرتی ہے۔ 
اُن کے الفاظ میں دردِ دل، لطافتِ احساس اور وقت کے ساتھ مکالمے کی وہ قوت ہے جو نسلوں کو فکری روشنی عطا کرتی ہے۔ راقم نے کہا نذیر قیصر کے سامنے الفاظ اس آرزو میں کھڑے رہتے ہیں کہ ان کا قلم انہیں سلک معانی میں پروئے اور آپ کے رشتہ ء افکار سے مل کر بالا و بلند ہو جائے ۔ 
ڈاکٹر عرفان الحق نے کہا کہ "آنکھیں، چہرہ، ہاتھ" میں انسانی وجود کے رموز اور جہات ایسے نمایاں ہیں جیسے آئینے میں کائنات کی عکاسی۔ انہوں نے نذیر قیصر کی شاعری کو وادئ تحیر سے مشابہہ قرار دیا۔۔
 آفتاب جاوید نے "ہرے کرشنا" کو محض ایک کتاب نہیں بلکہ مشرقی روحانیت اور اردو تہذیب کے درمیان ایک پل قرار دیا۔
ڈاکٹر نجيب جمال نے کہا کہ نذیر قیصر اپنے فن کے ذریعے قاری کو زمین سے آسمان تک لے جاتے ہیں اور بلقیس ریاض نے فرمایا کہ ان کی تحریروں میں ایک ماں کی دعا اور ایک شاعر کی دعا دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ آصف عمران نے نذیر قیصر کو اپنے عہد کی روحِ جستجو کہا جبکہ آسناتھ کنول نے کہا کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے انسانی دل کی دھڑکنوں کو تحریر کا جامہ پہناتے ہیں۔
نذیر قیصر کی شریک حیات عابدہ قیصر نے اپنے جذباتی اور والہانہ تاثرات میں کہا کہ کہ میں نے کوئی ایسی نیکی کی ہے جس کے صلے میں مجھے نذیر قیصر کی شکل میں انعام ملا ہے۔
محفل کی فضا ہر ہر جملے کے ساتھ مزید معنویت اختیار کرتی رہی۔ قاری کے دلوں کو چھونے والی گفتگوؤں نے اس بات کو ثابت کیا کہ نذیر قیصر صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک ایسی آواز ہیں جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد ہو کر انسانی روح سے ہم کلام ہوتی ہے۔
یہ تقریب اس بات کی روشن مثال بنی کہ جب شہرِ لاہور کی علمی و ادبی شخصیات کسی شاعر کے گرد محبت اور احترام کے دائرے میں اکٹھی ہوں تو وہ شاعر محض ایک فرد نہیں رہتا بلکہ ایک عہد کی پہچان بن جاتا ہے۔
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے۔
تقریب کے اختتام پر نذیر قیصر نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتب کا مقصد صرف لفظی جمالیات کو پیش کرنا نہیں بلکہ زندگی کے اُن سوالات کو اجاگر کرنا ہے جن سے انسان روز و شب دوچار ہے۔ اُن کے مطابق ادب، محض تفریح یا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے جو انسان کو اپنی حقیقت سے قریب کرتا ہے۔
یوں یہ تقریب محض ایک "کتابوں کی رونمائی" نہ رہی بلکہ لاہور کی فکری اور ادبی روایت کا ایک ایسا لمحہ بن گئی جو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ اس شام نے ثابت کیا کہ جب لفظ اور محبت یکجا ہو جائیں تو تہذیب اور انسانیت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر نذیر قیصر نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کتب کا مقصد صرف لفظی جمالیات کو پیش کرنا نہیں بلکہ زندگی کے اُن سوالات کو اجاگر کرنا ہے جن سے انسان روز و شب دوچار ہے۔ اُن کے مطابق ادب، محض تفریح یا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے جو انسان کو اپنی حقیقت سے قریب کرتا ہے۔
یوں یہ تقریب محض ایک "کتابوں کی رونمائی" نہ رہی بلکہ لاہور کی فکری اور ادبی روایت کا ایک ایسا لمحہ بن گئی جو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ اس شام نے ثابت کیا کہ جب لفظ اور محبت یکجا ہو جائیں تو تہذیب اور انسانیت کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔
تقریب کے آخر میں شرکاء کیلئے لذتِ کام و دہن کے پُرتکلف اسباب چن دیئے گئے جو کہ انتظامیہ کی مہمان نوازی کا بے مثال منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔ عامر رفیق کی رفاقت میں شعر و ادب کا سفر شروع ہوا ہے ۔ میں سابق سفیر آسٹریا کی نوازشات کو کبھی نہیں بھول سکوں گا جن کی کاوش ہم سب کے لیئے نوازش ثابت ہوئی ۔ عامر رفیق کی استدعا کو موصوفہ نے شرفِ قبولیت کی سند عطا کی ۔ 

بقول الطاف حسن قریشی کے


دیکھا  ہے دیارِ محبت میں دوستو 
 
اپنے وطن کا نام دلوں پر کھدا ہوا

Comments

No comments yet.

Effy Jewelry