لفظ اور محبت کا جشن نذیر قیصر کا فکری عہد
ارتعاش: تحریر: ھارون الرشید
لفظ اور محبت کا جشن
نذیر قیصر کا فکری عہد
گذشتہ شام آسٹریا کلچرل سینٹر، ماڈل ٹاؤن لاہور کی پرشکوہ فضاؤں میں ایک ایسی محفلِ علم و ادب منعقد ہوئی جو محض ایک تقریبِ پذیرائی نہ تھی بلکہ اردو تہذیب و فکر کے لیے ایک روحانی اور فکری تجدید کا لمحہ تھی۔ یہ نشست ایک ایسی روشنی کی مانند تھی جو لفظوں کے دیپ جلا کر انسان کے باطن کو اجالتی ہے۔ اس شام کا عنوان دو کتابوں "آنکھیں، چہرہ، ہاتھ" اور "ہرے کرشنا" کے خیر مقدم کے گرد گھوم رہا تھا، مگر حقیقت میں یہ محفل اردو زبان و ادب کی نئی معنویت اور انسانی فکر کی تجدید کا اعلان تھی۔
یہ تقریب صرف ایک شاعر کی پذیرائی نہیں بلکہ ایک عہد کی فکری سرگزشت تھی۔ نذیر قیصر کی ذات اور فن گویا وہ آئینہ ہیں جس میں وقت اپنی صورت دیکھتا ہے۔ ان کی شاعری محض الفاظ کی جادوگری نہیں بلکہ انسانی روح کے سوالات کی بازگشت ہے۔ محفل میں شریک اہلِ فکر و دانش نے اپنی گفتگوؤں سے یہ ثابت کیا کہ نذیر قیصر کا فن صرف کاغذی حقیقت نہیں بلکہ ایک زندہ مکالمہ ہے جو قاری کے دل میں اتر کر اسے اس کی اپنی ہستی سے روشناس کرتا ہے۔
اس موقع پر مہمانِ خصوصی، معروف روحانی اسکالر پیر شہزادہ شبیر احمد صدیقی فیصل آباد سے تشریف لائے، جنہوں نے نہایت عالمانہ اور پُراثر انداز میں کتب اور جناب نذیر قیصر کی شخصیت پر روشنی ڈالی۔ ان کے خطاب میں ایک روحانی سکون، فکری گہرائی اور ادبی ذوق کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے کہا کہ نذیر قیصر کی شاعری محض الفاظ کا جادو نہیں بلکہ ایک عمیق فکری سفر ہے جو قاری کو اپنی تہذیب، اپنی روحانیت اور اپنے وجود کی معنویت سے روشناس کراتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی تخلیقات ہمارے معاشرے میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس کے علاوہ، معروف محققہ اور شاعرہ ڈاکٹر کوثر جمال چیمہ نے بھی اپنی گفتگو میں نذیر قیصر کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ قیصر کی شاعری میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کی نزاکت، محبت کی شفافیت اور کائنات کی وسعتوں کا احساس بھی جمیل انداز میں اجاگر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کوثر جمال نے کہا کہ نذیر قیصر کا اسلوبِ بیان سادہ ہونے کے باوجود اتنی گہرائی رکھتا ہے کہ قاری کو اپنے اندر ڈوبا دیتا ہے اور اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
رخشندہ نوید نے اپنے تاثرات میں کہا کہ نذیر قیصر کا فن زندگی کے پردے ہٹا کر ہمیں اُس باطن میں لے جاتا ہے جہاں سوال اور جواب کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ شفافیت ہے جو آنکھ کو خواب اور دل کو یقین عطا کرتی ہے۔ منشا قاضی نے کہا کہ قیصر کے اشعار میں دردِ دل کی وہ شدت اور وقت سے مکالمے کی وہ قوت ہے جو نسلوں کو روشنی عطا کرتی ہے۔ ان کے الفاظ انسان کو تنہا نہیں چھوڑتے بلکہ اسے اپنے وجود کے اندر جھانکنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان الحق نے اپنی گفتگو میں کہا کہ "آنکھیں، چہرہ، ہاتھ" محض ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ انسانی وجود کے آئینے ہیں، جن میں کائنات کے رموز جھلکتے ہیں۔ انہوں نے اسے وادئ تحیر قرار دیا جہاں ہر لفظ ایک سوال ہے اور ہر مصرع ایک جواب۔ اسی طرح آفتاب جاوید نے "ہرے کرشنا" کو مشرقی روحانیت اور اردو تہذیب کے درمیان ایک ایسا پل قرار دیا جو دلوں کو جوڑتا ہے، اور تہذیبوں کے بیچ مکالمے کے در وا کرتا ہے۔
ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ نذیر قیصر کا فن قاری کو زمین سے آسمان تک لے جاتا ہے، اور بلقیس ریاض نے ان کی تحریروں کو ماں کی دعا اور شاعر کی دعا کا حسین امتزاج کہا۔ آصف عمران نے انہیں اپنے عہد کی روحِ جستجو قرار دیا، جبکہ آسناتھ کنول نے کہا کہ قیصر کی شاعری دل کی دھڑکنوں کو لفظ کا لباس عطا کرتی ہے۔
اس محفل کی ایک انوکھی جھلک نذیر قیصر کی شریکِ حیات عابدہ قیصر کے جذبات تھے۔ انہوں نے کہا کہ شاید میں نے کوئی نیکی کی تھی کہ مجھے نذیر قیصر کی صورت میں انعام ملا۔ یہ جملہ اس شام کی روحانی کیفیت کو اور گہرا کر گیا۔
محفل کے ہر لمحے میں یہ احساس غالب رہا کہ نذیر قیصر ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد کی آواز ہیں، ایک ایسی آواز جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد ہو کر انسانی روح سے ہم کلام ہوتی ہے۔ لاہور کی علمی و ادبی شخصیات جب ان کے گرد محبت اور احترام کے دائرے میں جمع ہوئیں تو یہ حقیقت اور زیادہ نمایاں ہوئی کہ وہ شاعر نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت ہیں۔ ان کا معروف شعر:
"دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے،
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے، ایسا لگتا ہے"
محفل کے آہنگ میں گویا بازگشت بن کر گونجتا رہا۔
تقریب کے اختتام پر نذیر قیصر نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریروں کا مقصد صرف لفظی جمالیات نہیں بلکہ زندگی کے ان سوالات کو اجاگر کرنا ہے جن سے انسان روز و شب دوچار رہتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب محض تفریح یا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے، ایسا سفر جو انسان کو اس کی حقیقت سے قریب تر لے آتا ہے۔
یوں یہ شام محض کتابوں کی رونمائی نہ رہی، بلکہ لاہور کی فکری و ادبی تاریخ کا ایک ایسا لمحہ ثابت ہوئی جو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ اس محفل نے یہ اعلان کیا کہ جب لفظ اور محبت یکجا ہو جائیں تو تہذیب اور انسانیت کے نئے دریچے کھلتے ہیں، اور ایک شاعر اپنی ذات سے آگے بڑھ کر عہد کی شناخت بن جاتا ہے۔
انتظامیہ کی مہمان نوازی، بالخصوص آسٹریا کلچرل سینٹر کے روح رواں عامر رفیق کی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت نے اس تقریب کو وہ رنگ عطا کیا جو محض ایک شام کا نہیں بلکہ ایک دائمی یادداشت کا حصہ ہے۔ یہ محفل ایک مثال ہے کہ کیسے ادب، محبت اور فکر مل کر انسانی زندگی کو ایک نئے معنی عطا کرتے ہیں۔
آخر میں شرکاء کے لیے پرتکلف ضیافت کا اہتمام ہوا جو میزبانوں کی مہمان نوازی اور حسنِ ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ مگر اس شام کی اصل ضیافت وہ فکری مکالمہ اور روحانی پرواز تھی جس نے دلوں کو سیراب کیا اور ذہنوں کو روشنی بخشی۔
No comments yet.