دہشت گردی کے سہولت کار
دہشت گردی کے سہولت کار
کالم
1988میں ہونے والے الیکشن کے نتیجہ میں پنجاب کے علاوہ وفاق اور تینوں صوبوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئیں ۔ جنرل ضیاءکے دور میں مارشل لاءکے خلاف جدو جہد کے لئے ایم آر ڈی کااتحاد قائم ہوا تھا اور اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ دیگر جماعتوں کے علاوہ اس صوبہ کی ایک اہم جماعت بھی شامل تھی ۔ 1988میں انتخابات سے پہلے دونوں جماعتوں میں یہ معاہدے ہوا تھا کہ اگر وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی تو موجودہ خیبر پختون خوا اور اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر اسی جماعت سے ہوں گے لیکن حکومت بنانے کے بعد جب محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے ایسا کرنا چاہا تو مقتدر قوتوں کی جانب سے بڑا واضح پیغام آیا کہ اس جماعت کے چونکہ سویت یونین کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات ہیں اور یہ صوبہ افغانستان سے متصل ہے تو انتہائی حساس اہمیت کے اس منصب پر اس جماعت کے آدمی کو گورنر نہیں لگایا جا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ جب پوری ریاستی مشینری اور حکومت اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے اور وہاں سے جتنے بھی دہشت گرد پاکستان آتے ہیں وہ خیبر پختون خوا میں پناہ لیتے ہیں تو پھر پورے ملک میں اور خاص طور پر اس حساس صوبے میںکوشش یہی ہونی چاہئے کہ حکومت کسی ایسی جماعت کی ہو کہ جو دہشت گردوں کے لئے نرم رویہ نہ رکھتی ہو بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہو ۔ دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو رہی اور تحریک انصاف ان کا ساتھ کیوں دیتی ہے یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ کون لوگ جن کے مفادات ان دہشت گردوں کے ساتھ ملتے ہیں اور پاکستان کے معصوم عوام اور افواج پاکستان کے اہلکاروں کے مرنے پر بھی جنھیں دکھ نہیں ہوتا بلکہ دہشت گردوں کے مرنے اور ان کے خلاف آپریشن یا کارروائی سے انھیں بڑی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرف دور میں جب دہشت گردوںپر ڈرون اٹیک ہوتے تھے تو عمران خان اور دہشت گردوں کے جتنے بھی حامی تھے انھیں بڑی تکلیف ہوتی تھی اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور سا لمیت پر مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے تھے لیکن کبھی بھول کر بھی پاکستانی حدود کی اس پامالی کی بات نہیں کی کہ جو دہشت گرد کرتے تھے اور پھر معصوم پاکستانیوں کو مارتے تھے ۔ اندازہ کریں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں جب میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر خود کش حملہ ہوا تو میڈیا پر دہشت گردوں کے جو وکیل تھے وہ عوام کو کہانیاں کرا رہے تھے کہ در اصل اس ہوٹل میں امریکن میرینز کو بڑے بڑے بکسے لے کر جاتے دیکھا گیا ہے کہ جن میں میزائل تھے اور وہ ان میزائلوں سے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو نشانہ بنانا چاہتے تھے ۔حماقت کی انتہا دیکھیں کہ پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام کسی فٹ پاتھ پر آلو چھولے کی ریڑھی پر تھا کہ میریٹ ہوٹل کی چھت سے کندھے پر راکٹ رکھ کر فائر کرنے سے وہ تباہ ہو جائے گا اور تمام سکیورٹی ایجنسیاں خواب غفلت میں سو رہی تھی اور صرف ان دہشت گردوں کو اس واردات کا علم تھا ۔ اس کے بعد جب 2014میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو اس سے پہلے اس کی زبردست مخالفت کی گئی لیکن مستقبل میں اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے بحالت مجبوری اسے قبول کیا گیا۔ 2021میں جب عمران خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد آ جائے گی تو پاکستان کی سلامتی کی راہ میں ہزاروں دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کرا کر اور افغانستان سے خیبر پختونخوا میں لا کر آباد کرا کر بارودی سرنگیں بچھانے کا انتہائی خطر ناک کام کیا گیا ا س کے نتائج گذشتہ 4سال سے ملک و قوم بھگت رہی ہے ۔
اندازہ کریں کہ سکیورٹی فورسز جن میں خاص طور پر افواج پاکستان کے اہل کار شامل ہیں ان پر جب دہشت گرد حملے کرتے ہیں اور وہ جام شہادت نوش کرتے ہیں تو ان کے لئے کبھی تعزیت کے دو بول بولنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن اگر افواج پاکستان ہندوستان کے ان فتنہ الخواج کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو اس پر بڑی تکلیف ہوتی ہے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کو آپریشن روکنے کا کہا جا تا ہے ۔ اسی طرح گذشتہ دنوںضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ اکاخیل میں خوارج کی قائم کی ہوئی آئی ای ڈی بنانے والی فیکٹری دھماکے سے اڑ گئی جس کے نتیجہ میں 14دہشت گرد ہلاک اور دس شہری جاں بحق ہوئے تو وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی جانب سے فوری طور پر ان کے لئے ایک ایک کروڑ مدد کا اعلان ہوا ۔ دہشت گردوں کے حق میں یہ وہ رویے ہیں کہ جو دہشت گردی کے ناسور کو ختم نہیںہونے دیتے ۔ بانی پی ٹی آئی اگر سمجھتے ہیں کہ آپریشن حل نہیں ہے تو بالکل ٹھیک اب تو اس صوبے میں آپ کی حکومت ہے آپ مذاکرات یا جو بھی مناسب حل ہے اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر بانی دہشت گردوں کے حمایتی کیوں ہیں اور آج سے نہیں ہیں بلکہ شروع دن سے ہیں اور جب بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوئی تو خان صاحب نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کیاور ان کی ہر ممکن طریقے سے مددکی ۔ اس لئے کہ تو پارٹی کارکنوں سے مایوس ہونے کے بعد ان کے لئے انتشار کا آخری سہارہ یہی ہیں اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2014 تک جو دہشت گردی ہو رہی تھی اس میں فرقہ واریت کا رنگ زیادہ تھا لیکن اب صرف افواج پاکستان اور سکیورٹی اہل کار نشانہ پر ہیں اور انہی کو گذشتہ چار برس سے بانی پی ٹی آئی اور ان کا سوشل میڈیا بھی نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں۔
No comments yet.