نذیر قیصر کی غزل بیل بوٹوں سے لکھی حمد
تحریر :محمد حمید شاہد اسلام آباد
تحریر :محمد حمید شاہد اسلام آباد
گزر چکی صدی کی چھٹی دہائی کے لگ بھگ وسط سے غزل کے باب میں اپنا نام رقم کروا لینے والے نذیر قیصر سے میرا اولیں تعارف ان کی کتاب ”آنکھیں چہرہ ہاتھ“ سے ہوا تھا:
آنکھیں چہرہ ہاتھ لئے پھرتا ہوں میں
کیا کیا اپنے ساتھ لئے پھرتا ہوں میں
جی، اس کتاب سے، جس کی تقریظ میں جیلانی کامران نے ایک عجیب بات لکھ دی تھی۔ نذیر قیصر کا ذکر آتے ہی ہر کوئی وہی بات دہراتا تھا؛کوئی متعجب ہو کر اور کوئی مرعوب ہوتے ہوئے۔ جیلانی کامران کے مطابق ؛نذیر قیصر کی غزلوں میں سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ ان کی دنیا دشت وحشت کی دنیا نہیں تھی۔ بات یہی تک رہتی تو اتنا ہنگامہ کہاں اٹھنا تھا۔ یہ بات انہوں نے 1967 ء میں کہی تھی اور ہم آج تک کی غزل کو اٹھا کر دیکھ لیں، تو لگتا ہے کہ غزل کی دنیا تو اسی دشت میں پڑتی ہے۔
یہی وتیرا اسے محبوب ہو گیا ہے اور کسی حد تک اس صنف کی شناخت بھی۔ تپتی دوپہر، سنسان گلیاں، ویران مکان، بند دروازے، ریت کے تپتے اڑتے ٹیلے، خوف، تاریک رات جو ہمارے سروں پر تب تنی ہوئی تھی، ابھی تک تنی ہوئی ہے، ماضی کی پوشاک پہن کر آتے لمحے اور جذباتی جغرافیہ۔ اس دشت وحشت کا لگ بھگ ایسا ہی نقشہ جیلانی کامران نے کھینچا تھا جس میں نذیر قیصر کی شاعری کا طلوع ہوا تھا اور بتایا تھا کہ یہ شاعر وہیں کہیں تھا مگر اس دشت سے الگ کھڑا تھا۔ اب جیلانی کامران کا وہ جملہ مقبس کر رہا ہوں جس نے ہر شاعر کے دل میں کھلبلی سی مچا رکھی تھی:
” نذیر قیصر کی شعری دنیا میں تجربے کا جمود ٹوٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور پہلی بار انسان اپنے آپ کو کائنات کی بارگاہ میں جاگتا ہوا محسوس کرتا ہے۔“
میں عرض کر چکا ہوں کہ عمومی طور پر دیکھیں تو غزل کی دنیا میں وحشت میں گرفتاری کا چلن اب بھی ویسا ہی ہے اور بہ طور خاص ایسے شاعروں کو بہت محبوب ہے جنہیں فوری توجہ چاہیے کہ یہ حیلہ اتنا جادو اثر تو ہے ہی کہ فوری توجہ دلا دیتا ہے۔ مگر لطف یہ ہے کہ نذیر قیصر اپنی ڈگر پر اور اپنی الگ شناخت کے ساتھ ایک نفس مطمئنہ کی طرح رواں ہیں۔ وہ کائنات اور انسان کے درمیان جن جمالیاتی اقدار کی بنیاد پر رشتہ قائم کر رہے ہیں وہ انسان کی اپنی نظر میں بھی توقیر بڑھانے کا سبب ہوئی ہیں۔
یہ ناراض، جھلاتا جھگڑتا اور الجھتا ہوا انسان نہیں ہے ایک نئی دنیا کا نیا انسان ہے ؛ ایسا انسان جسے اپنی صداقتوں پر پورا ایقان ہے۔ جو اپنی روح کے کندھوں پر کسی گناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے نہیں ہے، جو درختوں کی شاخوں اور خوشبو کی دیوار کے عقب سے ایک کھلنڈرے بچے کی طرح اچھلتا کودتا نکلتا ہے، راہ کے روڑے پتھروں کو پاؤں کی ٹھوکر لگاتے اور انہیں دور تک لڑھکاتے ہوئے :
خوشبو کی طرح تھام کے چلیے ہوا کا ہاتھ
مثل غبار، بوجھ فضا پر نہ ڈالیے
خوشبو کی طرح ہوا کا ہاتھ تھامنے والا بچہ خاک پر بیٹھ کر اس پر ایک دائرہ بناتا ہے، اپنے اردگرد جس میں انسان کی پوری کائنات سمٹ جاتی ہے۔ جی یہ دائرہ جو کائنات کو محیط ہے اسی زمین پر ہے جس پر وہ ہے اور ہم ہیں :
آسمانوں میں رب نہیں ملتا
پہلے ملتا تھا اب نہیں ملتا
مجھ کو دنیا میں جو میسر ہے
تیری جنت میں سب نہیں ملتا
بچے اور اس کی کل کائنات کا ذکر ہوا تو ”دوپہر کا چاند“ کے دیباچے میں نذیر قیصر کے اس کہے کی جانب دھیان جاتا ہے :
”میری شاعری بچوں کے لئے ہوتی ہے جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں اور بڑوں کو یہ شاعری ضرور پڑھنی چاہیے تا کہ وہ بچے بن سکیں شاعری جیسی بھی ہو جب تک وہ حیرت تخلیق نہیں کرتی پڑھنے والے کا راستہ روک کر کھڑی نہیں ہو جاتی اس وقت تک وہ شاعری نہیں کہلا سکتی۔ حیرت محسوس کرنے اور تخلیق کرنے کے لئے دنیا کو بچوں کی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے :
میں نے بچوں کی آنکھوں سے دنیا دیکھی ہے
قیصر میرے جیسے شاعر بچے ہوتے ہیں
جو شاعر دنیا کو بچوں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے وہ حیرت تخلیق بھی کرتا ہے اور اپنے پڑھنے والے کو حیرت زدہ بھی کرتا ہے۔ ”
نذیر قیصر کا یہ بیان بہت سے مغالطے پیدا کر سکتا ہے۔ جس حیرت کی وہ یہاں بات کر رہے ہیں یہ قطعاً بچگانہ حیرت نہیں ہے ؛ ایک اور طرح کی حیرت ہے جس میں کئی قفل کھل جاتے ہیں۔ لگ بھگ ویسی جو صوفیا کے دامن میں پڑتی ہے تو بہت کچھ منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔ اس نوع کی حیرت بوڑھی اور مکار آنکھوں کے وسیلے سے تخلیقی تجربے کا حصہ نہیں ہو پاتی، اس کے لیے بچوں کی سی معصوم آنکھیں چاہئیں۔
روتی ہنستی شاعری
بچوں جیسی شاعری
شعلے جیسا ذائقہ
پانی جیسی شاعری
بہ ظاہر نذیر قیصر سامنے کی زبان برتتے ہیں، سہل اور رواں، مگر واقعہ یہ ہے کہ پانی ہو کر متشکل ہوتی اس شاعری کی تاثیر بدل کر شعلہ ہو جاتی ہے۔ اس آتش فشاں پہاڑ جیسی جو دیکھنے کو شانت نظر آتا ہے مگر اس کے اندر کا دھکتا رسال کھول رہا ہوتا ہے۔ احساس کی یہ شدت اور اس شدت کا محض دکھاوے کا نہ ہونا بلکہ حقیقی ہونا اس اخلاص کی صورت سامنے آتا ہے جو ان کے شعر کو تاثیر کی دولت سے مالامال کر دیتا ہے۔
دور تک پھول برستے ہی چلے جاتے ہیں
جب وہ ہنستی ہے تو ہنستی ہی چلی جاتی ہے
۔
اس کا اسٹیشن آنے والا تھا
ریل بھی سیٹیاں بجانے لگی
۔
اس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھے
آ گئی ساری جان ہاتھوں میں
۔
اس نے پیاس میں کروٹ بدلی
اور گھڑے میں جاگا پانی
میں نے اوپر نذیر قیصر کے ہاں جس بدلی ہوئی فضا کا ذکر کیا ہے اس میں ہماری اپنی زمین ہے، مٹی، پانی، چاند اور ستارے ہیں۔ بہتی ہوا، پھول اور خوشبو ہے۔ کہہ لیجیے، جہان فطرت کی کتاب صفحہ صفحہ کھلتی چلی جاتی ہے اور ہر صفحے کی لرزش سے ایک طلسماتی آہنگ بنتا ہے اور اس آہنگ کے ساتھ اس انسان کا ہیولا بنتا ہے جو اپنے آپ کو کائنات کی بارگاہ میں جاگتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ اس منظر کی جھلک دیکھنے کو آخر میں ایک غزل سے دوچار اشعار:
نوشتے بکھرے پڑے تھے غبار اڑا ہوا تھا
کہیں کہیں پہ ترا نام بھی لکھا ہوا تھا
اتر رہے تھے فرشتوں کے غول باغوں پر
قدیم شہر تھا اور آسماں جھکا ہوا تھا
لکھی ہوئی تھی کوئی حمد بیل بوٹوں سے
پرانے عہد کا کتبہ کہیں پڑا ہوا تھا
پرانے لوگ کسی غار میں پڑے ہوئے تھے
اور ان کے نام کا سکہ کہیں چلا ہوا تھا
کھلے ہوئے تھے کہیں پھول باغ سے باہر
چراغ، طاق سے باہر کہیں جلا ہوا تھا
کسی بہشت کا کونا تھا میرا حجرہ بھی
کہیں کتاب، کہیں پر دیا پڑا ہوا تھا
No comments yet.