پرائیڈ آف پرفارمنس جناب نذیر قیصر: سراپا محبت صوفی شاعر
تحریر: شہباز چوہان

اردو ادب کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو صرف ایک عہد کو جنم نہیں دیتے بلکہ اس کے فکری اور جمالیاتی رخ کو نئی جہت عطا کرتے ہیں۔ نذیر قیصر انہی شعرا میں شامل ہیں۔ایسے شاعر جن کی شاعری محض الفاظ نہیں بلکہ روح کی صدا اور محبت کی زبان ہے۔ آپ کی تخلیقات کا ماخذ فطرت ہے
آپ کی شاعری میں پھول، پیڑ، پرندے، دریا اور ہوائیں محض علامات نہیں بلکہ مکمل کردار ہیں۔ نذیر قیصر صاحب کے کلام کا مرکز انسان ہےمحبت، امن، امید اور دل کی پاکیزگی۔ آپ کہتے ہیں:
عمر گزری ہے عبادت کرتے
اچھا ہوتا جو محبت کرتے
اور ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
دنیا اچھی لگتی ہے، رب اچھا لگتا ہے
اچھی آنکھوں والوں کو سب اچھا لگتا ہے
آپ ایک صوفی ،درویش اور قلندر صفت شاعر ہیں ۔آپ کا مذہب محبت ہے اور عقیدہ انسانیت۔
مجھے فخر ہے کہ میرا علمی،مذہبی اور روحانی تعلق " محبت کے قبیلے کے شاعر "نذیر قیصر صاحب سے ہے۔ آپ محض شاعر نہیں بلکہ ایک مکتبِ فکر ہیں۔
آپ کے قریبی احباب میں اشفاق احمد جیسے لوگ شامل ہیں، جو خود کو ان کا "عاشق" کہتے ہیں۔ فیض احمد فیض، بانو قدسیہ، ن م راشد، امرتا پریتم، ناصر کاظمی، منیر نیازی، قتیل شفائی، ظفر اقبال، پروین شاکر، منصور آفاق، اور حسن نثار ایسے لوگ آپ کی قامت کے معترف ہیں۔
آپ کے قد کا اندازہ کرنا مشکل ہے
پروین شاکر نے ایک بار کہا:
میں نے نرم گفتاری اور محبت کرنا نذیر قیصر سے سیکھا ہے"۔"
یہی وہ مقام ہے جہاں ایک شاعر "شخص" سے نکل کر "مکتب" بن جاتا ہے۔
آنکھیں، چہرہ، ہاتھ ۔ ایک عہد ساز کتاب
نذیر قیصر کا پہلا مجموعہ کلام "آنکھیں، چہرہ، ہاتھ" 1968ء میں شائع ہوا، جسے ناصر کاظمی نے ترتیب دیا۔
پروین شاکر کہا کرتی تھیں:
یہ میری محبوب ترین کتاب ہے، جو ہر رات میرے سرہانے موجود" ہوتی ہے"۔
ہمارے دوست عماد اظہر Ammad Azhar نے آپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا"
نذیر قیصرصاحب کا شعر پڑھتے ہوئے دیوار کے آر پار جایا جا سکتا ہے۔"
آج کی دوسری کتاب
"ہَرے کرشنا" کا بنیادی فلسفہ گیتا سے ماخوذ ہے، جو عمل اور کرم کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ کتاب ان کے روحانی سفر کی جھلک پیش کرتی ہے۔ قیصر صاحب خود کہتے ہیں:
"ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مذہبی ہیں، روحانی نہیں۔ ہمیں
روحانی ہونے کی ضرورت ہے۔ میری شاعری کا سفر، آنکھیں چہرہ ہاتھ سے اے شام ہم سخن ہو، زیتون دی پتی، گنبد خوف سے بشارت، اے ہوا موذن ہو اور ہَرے کرشنا تک، ایک مسلسل روحانی سفر ہے جس میں خدا، کائنات اور انسان ایک ہی خواب میں جاگتے ہیں"۔
ہمارے دوست رانا سعید دوشی Rana Saeed Doshi Rana Saeed Doshi کا شعر ہے:
منہ زبانی نہ جتاتا کہ محبت کیا ہے
میں تجھے کر کے دکھاتا کہ محبت کیا ہے
نذیر قیصر صاحب محبت کر کے دکھانے والے انسان ہیں۔ آپ کی شخصیت میں عاجزی، برداشت، اور صلح جوئی نمایاں ہے۔ آپ امن کے داعی اور جنگ کے مخالف ہیں، اورآپ کی شاعری کا بنیادی پیغام محبت اور شانتی ہے۔
میں نے پہلی بار آپ کا کلام ایک فلم میں گلوکارہ مالا اور پھر اعجاز قیصر کی آواز میں سنا، پھر رسالوں میں پڑھا، اور آپ کا دیوانہ ہوگیا۔ پھر جب وقت آیا آپ سے مل کراور چھو کر مجسم محبت کو محسوس کیا تو یہ اندازہ ہوا کہ آپ کی شاعری کا فلسفہ اور آپ کی شخصیت ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
حسن نثار صاحب کے الفاظ ہیں:
اگر شاعری مجسم ہو جائے تو وہ یقیناً نذیر قیصر کی صورت اختیار کرے گی۔
نذیر قیصرصاحب نے ہمیں سکھایا کہ لابی یا گروہ کا حصہ بنے بغیر بھی عظیم شاعر ہوا جا سکتا ہے۔ ہم نے آپ سے محبت، برداشت، اور عاجزی سیکھی۔ آپ کا کلام آنے والی نسلوں کے لیے محبت اور امن کا پیغام ہے، اور یہ پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

ہم خیال چاہئے کالم

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.