ہفتہ ،13 ستمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

نئی نسل، نیا نقطہ نظر: بلاول کا عالمی ویژن

اداریہ

Editor

2 ماہ قبل

Voting Line

جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ میں جب ہم کشیدگی اور تصادم کے ادوار کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے بنیادی ضرورت مکالمے کی ثقافت کا فروغ ہے۔ اس تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کی سفارتی حکمت عملی نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک امید کی کرن کے طور پر سامنے آتی ہے۔

بلاول کی سفارت کاری کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جذباتی ردعمل کے بجائے منطقی تجزیے پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ رویہ خاص طور پر اس وقت اہم ہو جاتا ہے جب ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی بھی غلط قدم تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ماضی میں اکثر اوقات ردعمل (reactive approach) کو ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن بلاول کی قیادت میں ہم ایک مختلف نمونہ دیکھتے ہیں - یہ پیش قدمی (proactive approach) کا ہے۔ جب انہوں نے بھارت کو انسداد دہشتگردی میں تعاون کی پیشکش کی، تو یہ محض ایک سفارتی اقدام نہیں تھا بلکہ اس سے یہ پیغام گیا کہ پاکستان خطے کی امن و امان کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ پیشکش کیوں اہم ہے۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے پاک-بھارت تعلقات میں اعتماد کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے تعاون کی پیشکش ایک بہادرانہ قدم تھا جس نے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ کیا۔

بلاول کی سفارتی کامیابیوں کا جائزہ لیتے وقت یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کامیاب سفارت کاری صرف بات چیت کا نام نہیں بلکہ اس کے ٹھوس نتائج بھی ہونے چاہیے۔ جنیوا میں سیلاب متاثرین کے لیے 9 ارب ڈالر کی امداد حاصل کرنا اس بات کی مثال ہے کہ مؤثر سفارت کاری کیسے قوم کے فائدے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کہ اس نے پاکستان کو ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے عالمی بحث میں ایک مضبوط آواز کے طور پر قائم کیا۔ جب ایک ملک یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ صرف اپنے مسائل کے حل کا منتظر نہیں بلکہ فعال طور پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے، تو اس کی بین الاقوامی حیثیت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔

بلاول کی سفارت کاری کا ایک اور اہم پہلو ماحولیاتی مسائل پر ان کی توجہ ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 21ویں صدی میں ماحولیاتی تبدیلی صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ جب پاکستان جیسا ملک، جو خود موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے، اس مسئلے پر عالمی قیادت کا کردار ادا کرتا ہے، تو یہ اس کی اخلاقی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ وہ عالمی کاربن اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس ناانصافی کو اجاگر کرنا اور اس کے حل کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھانا بلاول کی سفارت کاری کا ایک اہم کارنامہ ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاک-امریکہ تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی، اس کے تناظر میں بلاول کی واشنگٹن میں کامیاب سفارت کاری کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت کے ساتھ تعلقات میں بہتری صرف دوطرفہ فائدے کا نہیں بلکہ علاقائی استحکام کا بھی معاملہ ہے۔

بلاول نے یہ ثابت کیا کہ اگر مسائل کو منطقی انداز میں پیش کیا جائے اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر بات چیت کی جائے تو حتیٰ کہ پیچیدہ ترین تعلقات میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر بلاول کا نقطہ نظر خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو جذباتی بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر اٹھایا ہے۔ یہ رویہ اس لیے اہم ہے کہ یہ عالمی برادری میں پاکستان کے موقف کو زیادہ قابل قبول بناتا ہے۔

جب کوئی ملک اپنے موقف کو انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر پیش کرتا ہے، تو یہ محض علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ عالمی انصاف کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پاکستان کی سیاست میں نئی نسل کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو عالمگیریت کے دور میں پلی بڑھی ہے اور جانتی ہے کہ آج کے دور میں کوئی بھی ملک تنہا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس نسل کی سوچ میں تعاون، مکالمہ، اور مشترکہ مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنا شامل ہے۔

یہ رویہ خاص طور پر اس وقت اہم ہے جب پوری دنیا مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے - موسمیاتی تبدیلی سے لے کر دہشتگردی تک، وبائی امراض سے لے کر معاشی عدم استحکام تک۔ ان مسائل کا حل صرف ایک ملک کے بس میں نہیں بلکہ اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی سفارتی حکمت عملی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس آئندہ کے لیے ایک واضح ویژن ہے۔ یہ ویژن محض دفاعی نہیں بلکہ تعمیری ہے۔ اس میں پاکستان کو ایک ذمہ دار عالمی شہری کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

یہ نقطہ نظر خاص طور پر جنوبی ایشیا کے تناظر میں اہم ہے جہاں تمام ممالک ملتے جلتے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں - غربت، ماحولیاتی تبدیلی، دہشتگردی، اور معاشی عدم استحکام۔ ان مسائل کا حل علاقائی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کی سفارت کاری محض ایک سیاسی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک بالغ قوم کی بالغ سوچ کی علامت ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان اب ردعمل (reaction) کی بجائے پیش قدمی (proaction) کو ترجیح دے رہا ہے۔

اس سفارتی نقطہ نظر کی کامیابی اس بات میں ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان کے قلیل مدتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے بلکہ طویل مدتی استحکام اور ترقی کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ جب خطہ جنوبی ایشیا اپنے سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے، تو بلاول جیسی قیادت کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ حقیقی طاقت جنگ میں نہیں بلکہ امن قائم رکھنے میں ہے، اور حقیقی قیادت وہ ہے جو مشکل وقت میں صبر اور دانائی کا مظاہرہ کرے۔ بلاول بھٹو زرداری کی سفارت کاری اسی فلسفے کی عملی تصویر ہے۔

Comments
مشتاق دراوڑ 2 ماہ قبل

I am jiyala from Mirpurkhas Sindh

Effy Jewelry