بلاول بھٹو کی بصیرت افروز سفارتکاری نے دل جیت لیے
اداریہ

واشنگٹن ڈی سی کے سیاسی منظرنامے پر ایک بار پھر پاکستان کا نام درخشاں ہوا، اور اس روشنی کے محور تھے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری۔ ان کی قیادت میں اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد کا حالیہ امریکی دورہ محض رسمی ملاقاتوں تک محدود نہیں تھا—بلکہ یہ ایک عزم، تدبر اور امن پسندی پر مبنی ایسا جراتمندانہ سفارتی مشن تھا جسے بجا طور پر "امن کا مشن" کہا گیا۔
پاکستان ہاؤس میں دونوں بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مؤثر امریکی قانون سازوں کے ساتھ عشائیہ اور بعد ازاں کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے کلیدی ارکان سے گہری ملاقاتوں نے اس بات پر مہر ثبت کی کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عالمی سفارت کاری میں اعتماد، فہم اور فصاحت کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی ایشیا میں بڑھتے خطرات کا نہایت مدلل اور جراتمندانہ انداز میں خاکہ کھینچا۔ ان کا کہنا کہ "آج جنوبی ایشیا اس بحران کے آغاز کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے" صرف ایک انتباہ نہیں بلکہ حقائق پر مبنی تشویش کا اظہار تھا۔ ان کی یہ تنبیہ کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی دہشتگرد حملے کو بغیر ثبوت کے جنگ کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی حقیقت ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو "وجودی خطرہ" قرار دینا اور کہنا کہ اگر بھارت نے پانی بند کیا تو یہ جنگ کا اعلان ہو گا، نہایت اہم اور بروقت نکتہ تھا۔ چیئرمین بلاول نے دنیا کو باور کرایا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی پانی سے جڑی ہے، اور اس پر سیاست ناقابل قبول ہے۔
بلاول بھٹو نے بھارتی زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس مسئلے کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کشمیر کو صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی انسانی المیہ قرار دے کر اسے درست سفارتی تناظر میں پیش کیا۔
سابق وزیر خارجہ نے امریکہ کے جنگ بندی میں کردار کی تعریف کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ واشنگٹن اب مزید فعال کردار ادا کرے۔ ان کا پیغام واضح تھا: اگر امریکہ اپنی طاقت کو امن کے حق میں استعمال کرے، تو جنوبی ایشیا میں حقیقی مکالمے اور دیرپا امن کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔
امریکی قانون سازوں کی جانب سے وفد کی بریفنگ کو سراہنا، اور امن کی کوششوں میں تعاون کی یقین دہانی، بلاول بھٹو زرداری کی مؤثر سفارت کاری اور مدلل گفتگو کی کامیابی ہے۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ پاکستان کی بات جب فہم، دلیل اور وقار کے ساتھ کی جائے، تو وہ سنی بھی جاتی ہے اور سمجھی بھی جاتی ہے۔
واشنگٹن میں بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ایک سیاسی قائد ہیں بلکہ پاکستان کے ایک اہل اور باوقار عالمی سفیر بھی ہیں۔ ان کی یہ مہم صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ "امن کا مشن" اب محض ایک تقریری نعرہ نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی حقیقی پالیسی وژن کا نام ہے۔
ہمیں ان پر فخر ہے، اور دنیا کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان امن چاہتا ہے—لیکن اپنے وقار، پانی اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان عالمی سفارتی محاذ پر اعتماد سے، دلیل سے اور عزم سے کھڑا ہے۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

ہم خیال چاہئے کالم

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.