پاک امریکا تعلقات: نئے دور کی بنیادیں
اداریہ

از جنید قیصر
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں امریکہ کے 249ویں یوم آزادی کی تقریب محض ایک سفارتی روایت نہ تھی بلکہ اس نے دو طرفہ تعلقات میں ایک نئی فکری اور عملی بنیاد کی جھلک پیش کی۔ جب امریکی ناظم الامور، نیٹلی بیکر نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، تو ان کا پیغام صرف خیرسگالی تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس نے اس بنیادی حقیقت کی یاددہانی کرائی کہ دیرپا شراکت داریاں وقتی مفادات نہیں، بلکہ مشترکہ اقدار پر استوار ہوتی ہیں۔
بیکر نے آزادی، مساوات اور خود ارادیت جیسے اصولوں کو اجاگر کرتے ہوئے پاک-امریکہ تعلقات کی اس فکری بنیاد کی جانب اشارہ کیا جو پچھلے آٹھ عشروں سے ان تعلقات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ محض رسمی گفتگو نہ تھی، بلکہ اس حقیقت کا اعتراف بھی تھا کہ دونوں ممالک، اپنے الگ الگ تاریخی تناظر کے باوجود، جمہوری اداروں کی تشکیل اور نمائندہ حکمرانی کی راہ میں یکساں چیلنجز سے گزرے ہیں۔
اگر آج کے پاک-امریکہ تعلقات کی اہمیت کو پوری طرح سمجھنا ہو تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تعلقات اب صرف سلامتی یا دفاعی معاملات تک محدود نہیں، بلکہ تعلیم، صحت، معیشت، اور سماجی ترقی جیسے کئی شعبوں تک پھیل چکے ہیں۔ بیکر کی جانب سے ان شعبوں میں تعاون کا تذکرہ اسی "جامع شراکت داری" کی جھلک دیتا ہے جو اب دونوں ممالک کے باہمی روابط کی بنیاد بنتی جا رہی ہے۔
اگرچہ انسداد دہشت گردی اور فوجی تعاون کو عمومی طور پر زیادہ توجہ ملتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور معیشت جیسے شعبے ہی وہ ستون ہیں جو عوامی روابط کو مضبوط بناتے ہیں – اور یہی روابط سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔
ان تعلقات میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے مابین تناؤ کو کم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ ان کی غیرروایتی سفارت کاری – جو رسمی پروٹوکولز سے ہٹ کر براہِ راست اور عملی انداز رکھتی ہے – نے جنوبی ایشیا میں ایک ممکنہ بحران کو ٹالنے میں مدد دی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں "امن کا آدمی" قرار دیا، اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کی تصدیق کی کہ صدر ٹرمپ نے متعدد بار جنگ بندی کی کوششوں کا کریڈٹ لیا – جو ان کی ذاتی دلچسپی اور کامیاب ثالثی کی علامت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کردار کو واشنگٹن اب ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا ہے۔ بیکر کی تقریر میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت کو سراہنا، اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو محض انسداد دہشت گردی کا پارٹنر نہیں، بلکہ ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتا ہے جو اشتعال کے باوجود برداشت اور تحمل کو ترجیح دیتا ہے۔
اس سوچ میں تبدیلی اس وقت اور نمایاں ہو گئی جب حالیہ بھارتی جھڑپ، جسے پاکستان نے "فالس فلیگ آپریشن" قرار دیا، کے بعد پاکستان نے فوری جوابی کارروائی کے بجائے غیرجانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی۔ یہ رویہ نہ صرف پاکستانی فیصلہ سازی کی سنجیدگی کا مظہر ہے بلکہ اس عالمی اعتماد کی بھی توثیق ہے جو اب پاکستان پر کیا جا رہا ہے۔
بیکر نے تجارت، اختراع، اور سفارتی تعلقات کو فروغ دینے کی امید کا اظہار کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ پاک-امریکہ تعلقات اب روایتی سیکیورٹی اور امداد کے دائرے سے نکل کر ایک متوازن، باہمی مفاد پر مبنی شراکت داری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کا ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی سیکٹر، اس کی جغرافیائی اہمیت، اور نوجوان و تعلیم یافتہ آبادی ایسے عوامل ہیں جو اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔
یوم آزادی کی تقریب میں امریکی "مہم جوئی اور لچک" کے جذبے کا ثقافتی انداز میں اظہار اگرچہ ایک معمولی پہلو لگے، لیکن یہ دراصل اس بات کی مثال ہے کہ غیررسمی ثقافتی روابط، اکثر رسمی سفارتی مکالمات سے زیادہ دیرپا اور مضبوط تعلقات کی بنیاد بنتے ہیں۔
وزیر اعظم، اعلیٰ حکومتی نمائندوں، کاروباری رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ پاکستان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاشرے کے مختلف طبقات میں بھی جڑیں رکھتے ہیں۔ یہ شراکت داری اب انفرادی شخصیات سے آگے نکل کر ادارہ جاتی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے – جو کہ کسی بھی تعلق کے لیے پائیداری کی علامت ہوتی ہے۔
درحقیقت، موجودہ پاک-امریکہ تعلقات کی اصل طاقت اس بات میں ہے کہ انہوں نے نہ صرف موجودہ چیلنجز کا سامنا کیا، بلکہ ایک ایسا فریم ورک بھی تشکیل دیا ہے جو مستقبل میں درپیش آزمائشوں کا بھی سامنا کر سکے گا۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی اور پاکستان کا متوازن ردعمل ان خطوط کو واضح کرتے ہیں جن پر یہ تعلقات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
آخر میں، بیکر کے الفاظ – کہ "ہم مستقبل میں مزید تعاون کے منتظر ہیں" – کو محض ایک رسمی جملہ نہ سمجھا جائے، بلکہ ایک ایسے عہد کے آغاز کے طور پر دیکھا جائے جس میں پاک-امریکہ تعلقات، باہمی احترام، مشترکہ اقدار، اور علاقائی استحکام کے جذبے سے ہم آہنگ ہو کر مزید گہرائی اختیار کریں گے۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

ہم خیال چاہئے کالم

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.