ہفتہ ،13 ستمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

بلاول بھٹو زرداری کی سفارتی بصیرت اور پاکستان کا وقار

اداریہ

Editor

3 ماہ قبل

Voting Line

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے جو پختگی، حکمت اور اصول پرستی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ نہ صرف قابلِ ستائش ہے بلکہ غور و فکر کی متقاضی بھی۔ ان کی حالیہ سفارتی کارکردگی، ایک ایسی سفارتی مہارت کو عیاں کرتی ہے جو پاکستان کی روایات کے عین مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


بلاول بھٹو زرداری کا اندازِ گفتگو نمایاں طور پر متوازن رہا۔ امریکہ کی قائم مقام سفیر ڈوروتھی شیا سے لے کر روس کے واسلی نیبینزیا تک، مختلف اور اکثر متضاد مفادات رکھنے والی عالمی طاقتوں سے ان کا مکالمہ اصولوں سے سمجھوتہ کیے بغیر عملی سفارت کاری کی مثال ہے۔ ۲۲ اپریل کے پہلگام واقعے پر ان کی بریفنگ اس کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ جذباتیت یا جارحانہ لہجے کی بجائے انہوں نے بین الاقوامی قانون، شواہد پر مبنی استدلال اور انصاف کے عالمگیر اصولوں کو اپنا ہتھیار بنایا۔ یہ وہ پختگی ہے جو مشکل اوقات میں پاکستان کے موقف کو مضبوط بناتی ہے۔


بھارت کی جانب سے بغیر تحقیق کے فوری طور پر پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے ردِ عمل میں چیئرمین بلاول کا رویہ ایک بالغ قیادت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا زور "شواہد پر مبنی تحقیقات" اور "قبل از وقت الزامات سے گریز" پر تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ "بے بنیاد الزامات تناؤ بڑھاتے اور امن کے امکانات کو کمزور کرتے ہیں"، نہ صرف حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ خطے کو درپیش خطرات کی گہری سمجھ بوجھ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف لفاظی نہیں، بلکہ طویل المدتی استحکام کے لیے ایک حکمت عملی ہے۔


دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں (80,000 سے زائد شہری جانوں کا نقصان) کو بلاول بھٹو زرداری نے نہایت مؤثر طریقے سے عالمی فورم پر پیش کیا۔ یہ صرف ایک عددی حقیقت نہیں تھی، بلکہ اسے ایک اخلاقی جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو "دہشت گردی کا شکار" کے طور پر پیش کیا، جس سے ملک کی ساکھ کو تقویت ملی اور غیر منصفانہ پراپیگنڈے کا بھرپور جواب ملا۔ یہ سفارتی پیغام رسانی کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


بھارت کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے عمل کو "پانی کو ہتھیار بنانے" کے قرار دینے کا ان کا چناؤ ایک شاندار سفارتی اصطلاح تھی۔ اس نے مسئلے کی سنگینی کو نہایت جامع اور عالمی سطح پر قابلِ فہم انداز میں پیش کیا۔ وزیرِ موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کے ساتھ مل کر انسانی اثرات کو اجاگر کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جدید سفارت کاری صرف روایتی سلامتی ہی نہیں، انسانی سلامتی اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی مرکزِ توجہ بناتی ہے۔ یہ نقطہ نظر عالمی سامعین، خاص طور پر یورپ، میں پاکستان کے موقف کی سنجیدگی کو بڑھاتا ہے۔


کشمیر جیسے بنیادی اور نازک مسئلے پر چیئرمین بلاول کا موقف واضح اور مستحکم رہا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ "بین الاقوامی قانون کے مطابق جموں و کشمیر کا منصفانہ حل" ہی خطے میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی تاریخی پوزیشن کے عین مطابق ہے بلکہ عالمی برادری کے قانونی و اخلاقی فریم ورک سے ہم آہنگ بھی ہے۔ یہی وہ اصولی سفارت کاری ہے جو طویل المدت میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔


روس سے امریکہ، چین سے لے کر یورپی یونین اور افریقی ممالک تک، بلاول بھٹو زرداری نے نظریاتی خلیج پر پل باندھنے کی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ڈنمارک، جاپان، جنوبی کوریا، الجزائر جیسے مختلف ممالک کے نمائندوں کے ساتھ کامیاب مشغولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو ہر فورم پر مؤثر طریقے سے پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ صلاحیت آج کی کثیر قطبی دنیا میں پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔


بلاول بھٹو زرداری کی سفارت کاری میں پاکستان کی عظیم سفارتی روایات کی جھلک بھی نظر آتی ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق جدت بھی۔ جذبہ، درستگی، پیچیدگی کو سمجھنے کی صلاحیت، اور تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش — یہ وہ خوبیاں ہیں جو انہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک قابلِ اعتماد ترجمان بناتی ہیں۔ سلامتی کونسل کے اراکین کی جانب سے پاکستان کے "ماپے تولے اور متناسب ردعمل" اور "بالغانہ رویے" کی تعریف اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


بلاول بھٹو زرداری نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سفارتی منظر نامے پر ایک مضبوط اور بااثر آواز ہیں۔ ان کی دانشورانہ گہرائی، جذباتی ذہانت، اصولوں پر استقامت، اور عملی لچک کا امتزاج ایسی قیادت کی نشاندہی کرتا ہے جو پاکستان کو عالمی سطح پر نہ صرف قابلِ احترام بلکہ بااثر مقام دلوا سکتی ہے۔ تاہم، سفارت کاری ایک دوڑ نہیں، مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ ان کی کامیابیاں حوصلہ افزا ہیں، مگر پائیدار امن اور پاکستان کے مفادات کے حصول کے لیے یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ عالمی سطح پر ان کی "مثالی سفارتی قیادت" پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے، جس کا تحفظ اور استحکام قومی مفاد میں ہے۔ امید ہے کہ یہ بصیرت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مستقل حصہ بنے گی۔

 

Comments

No comments yet.

Effy Jewelry