ہفتہ ،13 ستمبر 2025 لائیو دیکھیں
Effy Jewelry

فرحت اللہ بابر کی کتاب: دی زرداری پریزیڈنسی

بطور صدارتی ترجمان، فرحت اللہ بابر نہ صرف ایوانِ صدر کے اہم لمحات کے چشم دید گواہ تھے بلکہ انہوں نے ان لمحات کو بےباکی سے قلمبند بھی کیا ہے۔

Editor

3 ماہ قبل

Voting Line
فرحت اللہ بابر کی کتاب “The Zardari Presidency” (دی زرداری پریزیڈنسی) میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کچھ اہم ترین اور پردہ نشین واقعات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ بطور صدارتی ترجمان، فرحت اللہ بابر نہ صرف ایوانِ صدر کے اہم لمحات کے چشم دید گواہ تھے بلکہ انہوں نے ان لمحات کو بےباکی سے قلمبند بھی کیا ہے۔

کتاب کے مصنف فرحت اللہ بابر نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب کسی شخصیت پر مدح سرائی کے لیے نہیں بلکہ ایک سیاسی و تاریخی دستاویز ہے۔

 

انہوں نے وضاحت کی کہ اس کتاب کا مقصد ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ جیسے نعروں کی گونج دہرانا نہیں بلکہ وہ حقائق سامنے لانا ہیں جو اس دور میں قومی تاریخ کا حصہ تو بنے لیکن جنہیں قومی شعور میں مکمل اور متوازن طریقے سے جگہ نہیں دی گئی۔

فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ انہوں نے زرداری دور میں روزمرہ کی بنیاد پر ایک ڈائری تحریر کی، جس میں وہ تمام واقعات، فیصلے، ملاقاتیں، ریاستی کشمکش اور بحران شامل کیے گئے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔

کتاب میں ان تمام مشاہدات کو دس تفصیلی ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے، جنہیں مصنف نے ذاتی تاثرسے ہٹ کر ’ایک عینی گواہ‘ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ 

کتاب کے نمایاں ترین ابواب میں ’میمو گیٹ سکینڈل‘ سرفہرست ہے، جسے مصنف نے ’سیاسی خودکش حملہ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازش نہ صرف آصف زرداری کی ذات پر حملہ تھی بلکہ اس نے ادارہ جاتی اعتماد کو بھی متاثر کیا۔

اس وقت کے قائد حزب اختلاف میاں نواز شریف کا کردار بھی اس ضمن میں نمایاں کیا گیا ہے، جنہوں نے خود کالا کوٹ پہن کرعدالت میں اس کے خلاف درخواست دائر کی، اور بعد میں اس پورے قضیے کو ایک غلطی کے طور پر تسلیم کیا۔ فرحت اللہ بابر کے بقول اس غلطی کا خمیازہ صرف زرداری نے نہیں بلکہ پوری ریاست نے بھگتا۔ 

امریکی سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کیس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے بتایا کہ اس معاملے پر امریکی سفیر خاصے مضطرب تھے اور انہوں نے صدر زرداری سے ملاقات کی۔

اس موقعے پر وزیر اعظم نے واضح پیغام دیا کہ ’ریاست کے اندر ریاست‘ کاتصور قبول نہیں کیا جا سکتا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صدر زرداری نے اس کیس سمیت خارجہ پالیسی کے کئی اہم محاذوں پر خود قیادت کی۔ انہوں نے نہ صرف بھارت کے ساتھ جوہری پالیسی پر واضح موقف اپنایا بلکہ سعودی عرب اور ایران جیسے علاقائی حریفوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس خارجہ پالیسی کے بعض پہلوؤں پر سخت ردعمل سامنے آیا، مگر زرداری نے اپنی پوزیشن پر استقامت کا مظاہرہ کیا۔

مصنف نے تسلیم کیا کہ اگرچہ وہ صدر کے قریبی حلقے میں شامل نہیں تھے، تاہم ترجمان کی حیثیت سے انہیں غیرمعمولی حد تک باخبر رکھا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں انہیں یقین نہیں تھا کہ آصف زرداری اپنی آئینی مدت پوری کر سکیں گے، لیکن زرداری نے حالات کا سامنا نہایت صبر و تحمل سے کیا۔

فرحت اللہ بابر کے مطابق زرداری اکثر ان سے شکوہ کرتے کہ ’تم بھی مجھے لیڈر نہیں مانتے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو ان گناہوں کی سزا ملی جو انہوں نے کیے ہی نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے انڈیا کو پہلے حملہ نہ کرنے کی پیشکش کی جس کے بعد میں خوف ناک نتائج سامنے آئے۔

ان کے بقول سیاست دانوں کا احتساب شدید اور ریاستی اداروں کا احتساب ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک ’چوہے بلی‘ کا کھیل مسلسل جاری رہا، جس کے اثرات سیاست کی شفافیت اور عوامی اعتماد پر پڑے۔

کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی خاموش رضامندی حاصل کرنے کے بعد، جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اس سے قبل، زرداری نے نہایت احتیاط کے ساتھ جنرل کیانی کے ردِعمل کا اندازہ لگایا، جس پر کیانی نے کسی قسم کی مخالفت نہیں کی بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے آفتاب شعبان میرانی کو آئندہ صدر بنانے کی تجویز بھی پیش کی۔
یہی موقع تھا جب زرداری نے اپنے بااعتماد پارٹی رہنماؤں کو صوبائی اسمبلیوں میں پرویز مشرف کے خلاف قراردادیں پیش کرنے کی ہدایت دی، اور میجر جنرل (ر) محمود علی درانی کے ذریعے پرویز مشرف کو سخت پیغام بھجوایا: یا تو استعفیٰ دو، یا مواخذے کا سامنا کرو۔ اگرچہ ابتدا میں پرویز مشرف نے انکار کیا، لیکن کچھ ہی ہفتوں بعد وہ دباؤ کے سامنے جھک گئے اور مستعفی ہو گئے۔
کتاب میں یہ انوکھا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف، اُس وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے باوجود، صدارت کے خواہاں تھے۔ ایک غیر رسمی ملاقات میں جب نواز شریف نے زرداری سے کہا کہ “میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہئے”، تو زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “میری پارٹی بھی یہی سمجھتی ہے۔” اور یوں یہ بحث وہیں ختم ہو گئی۔
کتاب کے آٹھ ابواب میں سے چوتھا باب عدلیہ اور زرداری حکومت کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری، دونوں نے کبھی بھی جسٹس افتخار محمد چوہدری کی حمایت میں کھل کر اظہار خیال نہیں کیا۔ زرداری کا مؤقف تھا کہ جسٹس چوہدری “آزادی” کی آڑ میں ذاتی و ادارہ جاتی مفادات کی تکمیل کے لیے کام کر رہے تھے۔ 

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو معزول کرنے کے حوالے سے پہلے تو جنرل کیانی کے ممکنہ رد عمل کا اندازہ لگایا، اس صورتحال پر جنرل کیانی نے کوئی اعتراض نہ کیا، حتیٰ کہ آفتاب شعبان میرانی کو اگلا صدر بنانے کی تجویز تک دیدی۔ 

اس کے بعد زرداری نے اپنے بااعتماد پارٹی ارکان کو صوبائی اسمبلیوں میں پرویز مشرف کے مواخذے کا مطالبہ کرنے کی قراردادیں پیش کرنے کی ہدایت کی اور میجر جنرل (ر) محمود علی درانی کے ذریعے ایک پیغام پہنچایا جس میں پرویز مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں یا مواخذے کا سامنا کریں،  پہلے تو پرویز مشرف رضامند نہ ہوئے لیکن بلآخر چند ہفتوں بعد مستعفی ہوگئے۔

کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش مند تھے۔

ایک غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا کہ میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے، اس پر آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری پارٹی بھی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے، اس کے بعد یہ بحث وہیں ختم ہوگئی۔

 یہ کتاب 8 حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے چوتھا حصہ عدلیہ کے متعلق ہے اور اس میں زرداری کے عدلیہ کے ساتھ تصادم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ 

فرحت اللہ بابر کے مطابق بینظیر بھٹو اور نہ ہی آصف زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کی حمایت میں کسی طرح کا اظہار خیال کیا،  زرداری کی رائے تھی کہ جسٹس چوہدری آزادی کی آڑ میں دیگر مفادات کی تکمیل کیلئے بھی کام کرتے تھے۔ 

چوہدری کی بحالی کی وکالت کرتے ہوئے لاہور سے لانگ مارچ کے دوران زرداری کو اپنے وزراء حتیٰ کہ وزیراعظم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تاہم، زرداری شروع میں ثابت قدم رہے۔

 ٹرپل ون بریگیڈ کی تعیناتی ایوان صدر کے اندر اس رات ہوئی جس رات مارچ اسلام آباد کے قریب پہنچا۔

فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ اس ممکنہ چال کی وجہ سے شاید فوجی قبضے کا تاثر پیدا کیا ہو لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔

لانگ مارچ کے دوران جب افتخار چوہدری کی بحالی کا مطالبہ زور پکڑ گیا، تو زرداری کو نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ اپنی کابینہ اور حتیٰ کہ وزیرِاعظم کی طرف سے بھی شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ ابتدا میں اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ کتاب میں اس رات کا بھی ذکر ہے جب لانگ مارچ اسلام آباد کے قریب پہنچا، تو ایوانِ صدر کے اندر ٹرپل ون بریگیڈ تعینات کر دی گئی — ایک ایسا اقدام جس نے ممکنہ فوجی مداخلت کا تاثر پیدا کیا۔
یہ کتاب محض سیاسی تاریخ نہیں، بلکہ اقتدار کے پیچیدہ کھیل، عسکری و سیاسی اداروں کے باہمی تعلق، اور ایک صدر کے اندرونی فیصلوں کی عکاس دستاویز ہے، جو آنے والے مورخین کے لیے قیمتی حوالہ بن سکتی ہے۔ 

تقریب میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سربراہ امینہ سید نے کتاب کی اشاعت کو اہم قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی صدر کے دور کی اندرونی کہانی ایک ایسے شخص نے بیان کی ہے جو اس تمام عمل کا حصہ بھی تھا اور جس نے اس کل قریب سے مشاہدہ بھی کیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کتاب لکھنے کے لیے کہا تھا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’تب لکھوں گا جب پارٹی میں عہدے پر نہیں رہوں گا۔‘

کتاب میں سردار اختر مینگل اور افرسیاب خٹک جیسے رہنماؤں کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں، جو اسے ’پاور پالیٹکس‘ کی حقیقی جھلک اور ایک دستاویزی روایت قرار دیتے ہیں۔

دی زرداری پریزیڈنسی ’اب ملک بھر کے معروف بک سٹورز پر دستیاب ہے اور یہ کتاب ان تمام قارئین کے لیے ایک اہم مطالعہ ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اس کے اندرونی زاویوں سے سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

Comments

No comments yet.

Effy Jewelry