Pakistan’s Case: The Voice of Bhutto Still Echoes
Pakistan’s Case: The Voice of Bhutto Still Echoes

پاکستان کا مقدمہ: تاریخ کے آئینے میں بھٹو خاندان کی سفارتی روایت
تحریر: راؤ طاہر
حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک نے عالمی سطح پر اپنے اپنے مؤقف کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفود کو مختلف اہم عالمی دارالحکومتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کی نمائندگی بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشور اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کریں گے، جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ ذمہ داری سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو سونپی گئی ہے۔
یہ محض ایک سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا میں ایک نئے بیانیے کی تشکیل کا موقع ہے، جہاں پاکستان اور بھارت دونوں اپنے تاریخی مؤقف کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ترجیحات کو بھی دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے بلاول بھٹو کا انتخاب محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل کا مظہر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو: آغازِ سفارت کاری
پاکستان کی سفارتی تاریخ میں بھٹو خاندان کا کردار محض ایک سیاسی خاندان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک فکری اور سفارتی روایت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو محض 28 برس کی عمر میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی نمائندگی کے لیے اقوامِ متحدہ بھیجا گیا، جہاں اُن کی تقریر نے دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتی وجود کو ایک نئی شناخت دی۔
ایوب خان کے دورِ حکومت میں بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھی، جو آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل ستون ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران، انہوں نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ لڑا، اور بعد ازاں شملہ معاہدے میں اندرا گاندھی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھٹو نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری کے میدان میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
اسلامی دنیا کی قیادت اور بھٹو کی پہچان
1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ذوالفقار علی بھٹو کی سفارتی صلاحیتوں کا نقطہ عروج تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے نہ صرف مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کو ایک نظریاتی جہت بھی دی۔ اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان نے خود کو محض ایک علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی نظریاتی ریاست کے طور پر متعارف کرایا۔
بے نظیر بھٹو: تسلسل اور تجدیدِ سفارت
ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے ایک جدید سیاسی اور سفارتی بیانیے میں ڈھالا۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اپنی حکومت میں خواتین کی شمولیت، تعلیم، اور انسانی حقوق کے شعبوں میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نرم تشخص عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ، کامن ویلتھ، اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی اور خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت سے بھی فعال کردار ادا کیا۔
بلاول بھٹو زرداری: جدید سفارت کاری کا نمائندہ
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی وزارتِ خارجہ کے دوران مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کو جدید اور متوازن انداز میں پیش کیا۔ چاہے وہ افغانستان کی صورتحال ہو، بھارت کے ساتھ کشیدگی، یا مغرب کے ساتھ تعلقات — بلاول نے ہمیشہ ایک نپی تلی، سنجیدہ اور بین الاقوامی سفارتی زبان اختیار کی۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی پاکستان کے مؤقف کو مدلل انداز میں پیش کیا اور مغربی میڈیا کے ساتھ گفتگو میں بھی روایتی نعرہ بازی کی بجائے عالمی معیارات کے مطابق بیانیہ اپنایا۔
نتیجہ: ایک قومی روایت کا تسلسل
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھٹو خاندان کا کردار محض اتفاق نہیں بلکہ ایک تسلسل اور اعتماد کا اظہار ہے۔ جب بھی پاکستان کو ایک مؤثر سفارتی نمائندگی کی ضرورت پیش آئی، ایک بھٹو نے دنیا کے سامنے ملک کا مقدمہ پیش کیا — وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، بے نظیر بھٹو ہوں یا آج بلاول بھٹو زرداری۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ نمائندگی محض خاندانی یا جماعتی نہیں بلکہ ریاستی اعتماد کی علامت رہی ہے۔
Comments
سب سے زیادہ پڑھا
تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد

صدر آصف علی زرداری کا شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت

بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت سے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور سیلاب متاثرین کیلئے فوری ریلیف کا مطالبہ

ممتاز شاعرہ رخشندہ نوید کی شعری کلیات "دیپک" کی یادگار تقریب ِ پزیرائی

صدر مملکت کا خیبرپختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین

ہم خیال چاہئے کالم

بابائے سوشلزم شیخ رشید کی 23ویں برسی پر اہم سیمنار

No comments yet.